پانی کا غیر ضروری استعمال اور اسلامی تعلیمات

May 20, 2022

مولانا نعمان نعیم

بلاشبہ، پانی قدرت کا انمول عطیہ اور جملہ مخلوقات کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے، اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اسے زمین کے سوتوں میں پرو یا، پھر وہ اس پانی سے ایسی کھیتیاں وجود میں لاتا ہے جن کے رنگ مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں سوکھ جاتی ہیں تو تم انہیں دیکھتے ہو کہ پیلی پڑ گئی ہیں، پھر وہ انہیں چُورا چُورا کر دیتا ہے۔ یقیناً ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الزمر، آیت 21)

آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی سے وابستہ ان چار نظاموں کا ذکر فرمایا جن کے ہونے سے زندگی موجود ہے اور نہ ہونے سے زندگی مفقود۔ یہ نظام درج ذیل ہیں۔بارش کا پانی۔ زیر زمین پانی کے ذخائر کا نظام۔ زراعت کا نظام۔ زراعت کے نتیجے میں انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا نظام۔

آسمان سے بارش کے ذریعے پانی برستا ہے جو زیرزمین ذخائر میں تبدیل ہو جاتا ہے،وہاں سے زراعت کے کام آتا ہے۔ کھیتیاں جب پک کر سوکھتی ہیں تو انسانوں کو دانہ ملتا ہے اور زرد بنتی ہیں تو بھس بنتی ہیں جس سے جانوروں کو خوراک میسر ہوتی ہے۔ اس لیے پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔ ہمارا دوتہائی جسم پانی ہی پر مشتمل ہے۔ پانی جسم انسانی کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اندر افعال انجام دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس کی غیر موجودگی یا کمی کی صورت میں انسانی جسم مختلف خرابیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پانی کے ذریعے انسانی جسم میں درج ذیل افعال بخوبی انجام پاتے ہیں۔ یہ خون کو مائع حالت میں رکھنے میں مددگار بنتا ہے۔ غذا کو بڑی آنت کے ذریعے جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ پانی کی مناسب مقدار کے باعث جسم کا درجۂ حرارت ہر موسم میں معمول پر رہتا ہے۔ یہ جسم سے فاضل مادوں کو پیشاب کے ذریعے خارج کرتا ہے۔

خوراک کے ہضم ہونے میں مددگار ہے۔ بخار کی حالت میں پانی پلانے سے حدّت دور ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر جسم میں پانی کی کمی ہو جائے تو خون میں غذائی رطوبتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس کے سبب خون گاڑھا ہو جاتاہے۔ اگر جسم میں پانی کی شدید کمی (ڈی ہائیڈریشن) جنم لے تو درج ذیل کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ نظر کی دھندلاہٹ۔ خشک اور گرم جلد۔ نبض کی رفتار میں اضافہ اور سانس کا پھولنا۔ سماعت کی کمی۔

زندگی کا دارومدار پانی پر ہے، ماہرین کا کہنا یہ بھی ہے کہ دنیا میں برپا ہونے والی تیسری بڑی عالمی جنگ پانی پر ہوگی ۔ اگر ہم اس عالمی مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمارے دوسرے مسائل کی طرح اس کا حل بھی ہمیں حضور اکرم ﷺ کی مبارک تعلیمات میں تلاش کرنا ہوگا۔ چناںچہ حدیث پاک میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ وضو کر رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: یہ اسراف کیوں ہے؟ تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ، کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی (وضو کیوں نہ کر رہے) ہو۔

حدیث پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگر اسراف سے بچیں تو ہم اپنے اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں۔ کیونکہ اسراف ہی ایک ایسی بیماری ہے جو بڑی سے بڑی نعمت کو وقت سے پہلے ختم کر دیتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جا بجا اسراف سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور کھائو اور پیو اور فضول خرچی مت کرو، یاد رکھو کہ اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ الاعراف، 31)ایک جگہ تو فضول خرچی کرنے والوں کو شیاطین کا بھائی قرار دیا گیا ہے، چناںچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’یقین جانو کہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

ایک موقع پر آپ ﷺنے پانی میں فضول خرچی کرنے والے کو امت کا بدترین شخص قرار دیا: شرار أمتی الذین یسرفون فی صب الماء‘‘( حاشیہ الطحاوی :ص 80)

موجود ہ دور میں جن چیزوں میں بھی قحط اور قلت کا اندیشہ ہے، ان میں اعتدال تدارک کا بڑا اور اہم ذریعہ ہے، اگر احتیاط اور اعتدال کا سہارا لیا جائے تو بڑی حد تک پانی کی کمی کے اندیشے دور ہوسکتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں یہ بھی احساس ہونا چا ہیے کہ ہمارا رب ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں، اس کی واضح مثال اللہ کے وہ احکام قرآنی ہیں جس میں خالق کائنات نے بارہا نشان دہی کی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے کہ فضولیات میں مال اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔جب کہ سورۃ الا نبیاء میں ہے: جن نعمتوں میں تم عیش کرتے ہو،تم سے اس بارے میں (باز پُرس) پوچھا جائے گا۔

یہ آیت اس امر کی جانب نشاندہی کر تی نظر آتی ہے کہ پانی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے اور اس کا بے دریغ استعمال اور اس میں عدم اعتدال اسراف بے جا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس بارے میں نہ صرف حساب لے گا، بلکہ اس کے اسراف پر سزا بھی دے گا۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے پانی کے بے دریغ اور ناجائز استعمال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ پانی کا استعمال جہاں دیگر مقامات پر غیر محتاط انداز میں نظر آتا ہے، وہیں بدقسمتی سے مساجد میں وضو خانوں پر بعض افراد نل کھول کر بھول جاتے ہیں کہ پانی مستقل بہہ رہا ہے۔ یہ بھی اسراف اور پانی کا غیر ضروری استعمال ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا، جو تمہارا جی چاہے کھائو اور جو تمہارا جی چاہے پیو، جو چاہو پہنو، جب تک تم دو چیزوں اسراف اور بڑائی سے بچتے رہو۔ حدیث بالا پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگر ہم اسراف سے بچیں تو ہم اپنے اس اہم مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پانی صرف پینے کی چیز ہی نہیں، بلکہ تمام جانداروں کے وجود کی اساس اور رب کائنات کی توحید پر ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے، یہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے؟‘‘(سورۃ الانبیاء، 30)

پانی کو نیلا سونا کہتے ہیں، یہ محض ایک عنصر ہی نہیں ،بلکہ خدائے وحدہ لا شریک کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر بھی ہے۔ چناںچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اچھا یہ بتائو! یہ پانی جو تم پیتے ہو، کیا اسے بادلوں سے تم نے اتارا ہے، یا اتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا کر رکھ دیں۔ پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے؟ بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو ،کیا تم نے اسے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟ ، اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں، پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے۔ (سورۃ الواقعہ)

’’اور(اللہ) آسمان سے مینھ برساتا ہے۔ پھر زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ (وشاداب) کر دیتا ہے۔ عقل والوں کے لئے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں۔ (سورۃ الروم)

غرض قرآن میں اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی میں حیات کی تاثیر رکھی ہے ،اس لیے پانی پر صرف انسان کا ہی حق نہیں، بلکہ جتنا انسان کو حق حاصل ہے، اتنا ہی دوسری مخلوق کاحق ہے ۔ اگر یہ انسان اپنی ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے گا ،اسے ’’ اسراف‘‘ کہا جائے گا اور اسراف اسلام میں جائز نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ارشاد فرما دیا ہے :بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

اسراف سے کیوں کہ دوسروں کے حقوق بھی سلب ہوتے ہیں ، اور نظام تکوینی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے، یہ زمینی نظام میں فساد کا باعث ہوگا، اس طرح کہ فساد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، اسی کے بارے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص انداز میں انسان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ زمین کو برباد کرکے خود بھی اور دوسروں کو بھی اس کے فائدے سے محروم نہ کرے ،اس تباہی کو فساد فی الارض سے تعبیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے‘‘۔ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت پھیلاؤ ‘‘فساد ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ بندہ کھانے کا لقمہ کھائے یا مشروب کا کوئی گھونٹ پیے تو اس پر اللہ کی تعریف کرے۔‘‘ (صحیح مسلم) کیونکہ پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ ایک موقع پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، نعمت کے زائل ہو جانے سے عافیت کے پھر جانے سے، اچانک پکڑ اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔‘‘( صحیح مسلم)

پانی صرف ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کا ملاپ ہی نہیں، بلکہ انسانی عبادات سے ہماری زراعت تک تمام چیزوں کے وجود کا ضامن بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’وہی (اللہ) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، جس سے تمہیں پینے کی چیزیں حاصل ہوتی ہیں اور اسی سے وہ درخت اُگتے ہیں، جن میں تم مویشیوں کو چراتے ہو۔ اسی سے اللہ تمہارے لیے کھیتیاں، زینون، کھجور کے درخت، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں۔ اس لیے درج بالا مضمون کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ ’’پانی ہی زندگی ہے‘‘ تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس نعمتِ عظمیٰ کی صحیح معنوں میں قدر دانی نصیب فرمائے۔ (آمین)