وہ لاہور کہیں کھو گیا

May 22, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

برصغیر میں انگریزوں نے جتنی بھی تعمیرات کیں، انہوں نے ہر تاریخی عمارت اور ریلوے اسٹیشن پر اس کا سنگِ بنیاد رکھنے والے اور افتتاح کرنے والے کا نام اور تاریخ سفید اور سرخ سنگ مرمر پر کندہ کیا لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے بعض پاکستانی بھائیوں نے وہ تاریخی پتھر اکھاڑ یا غائب کر دئیے اور کئی پتھروں پر چونا پھیر دیا،لاہور میں جہاں ایسے تاریخی پتھر نصب ہیں ان کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔ ذیل میں جس پتھر کے بارے میں تحریر کر رہے ہیں وہ گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ کاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسکول کی پرانی عمارت کو مسمار کر دیا گیا اور نئی بدنما عمارت میں یہ پتھر 2008 میں نصب کیا گیا، اس اسکول کے تاریخی سنگِ بنیاد پر یہ تحریر رقم طراز ہے :

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ISLAMIA HIGH SCHOOL

THIS STONE WAS LAID BY N.H.SIR MISHAEL FRANCIS O DWYER

B.A.K.C.S.I.C.S

LIEUTENANT GOVERNOR OF THE PUNJAB 14-3-1914

یہ لاہور وہ لاہور ہرگز نہیں جو آج سے سو برس قبل کا تھا، اس کو بھی چھوڑیں اس لاہور کو صرف پچھلے پچاس برس کے اندر اندر انتہائی بھونڈےانداز میں تباہ وبرباد کر دیا گیا۔قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے ابتدائی دس برسوں میں جو لوگ پیدا ہوئے یقین کریں وہ اس شہر کی بربادی پر روتے ہیں۔

دکھ اور افسوس کی سب سے زیادہ بات یہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف امرتسری اور پکے لاہوریئے ہیں۔ان دونوں کے دور میں لاہور شہر کا تمام تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی حسن تباہ وبرباد کر دیا گیا، اقدار کی تو بات ہی چھوڑیں ہر طرح کی اچھی اقدار اور روایات مدت ہوئی دفن ہو چکی ہیں، پچھلے پچاس برسوں میں تاریخی عمارتوں کو جس طرح تباہ کیاگیا، وہ بیان سے باہر ہے، سکھوں نے تو اس شہر خصوصاً مغل دور کی تمام تعمیرات کو انتہائی برے انداز میں تباہ وبرباد کیا اور ان کے بعد رہی سہی کسر ہمارے حکمرانوں، پلازہ مافیا اور پلاٹ مافیا نے پوری کر دی، کیا کیا تاریخی باغات، عمارتیں، اسکول، سڑکیں، گلیاں، احاطے، کوچے، کٹریاں اور بازار تھے۔ اس شہر کی خوبصورتی پر ہر دور میں لوگوں نے لکھا مگر کسی حاکم نے اس شہر کے تہذیبی اور ثقافتی حسن کو بچانے کے لیے کچھ نہ کیا، یہ بات ہم بڑے دکھ سے بیان کر رہے ہیں کیوں کہ ہم نے اس لاہور کو اس وقت دیکھا جب یہاں خاصی تعداد میں اینگلو انڈین رہا کرتے تھے جب یہاں خاصی تعداد میں پارسی رہتے تھے، جب رات گئے تانگے میں جتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز دور تک سنائی دیتی تھی، اس لاہور کی مال روڈ پر کبھی چرچل نے گھڑسواری کی تھی، اس لاہور میں کیا کیا ہستیاں آئی تھیں، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، سرسید احمد خان، ملکہ الزبتھ، شاہ حسین، ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، یاسر عرفات، کرنل قذافی، محمد حسین آزاد، لیاقت علی خان، نواب بہادر یار جنگ، سردار عبدالرب نشتر، علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ، محترمہ فاطمہ جناح، کئی کالم تو محض نام لکھنے پر ہی مکمل ہو جائیں اور اگر اولیاءکرام کا ذکر کروں تو حضرت علی ہجویریؒ، حضرت میاں میرؒ، حضرت شاہ جمالؒ، حضرت شاہ کمالؒ، حضرت پیر مکی ؒ، حضرت مادھو لال حسینؒ، حضرت بڑے میاں درسؒ، حضرت میراں بادشاہؒ، حضرت شاہ زنجانیؒ، حضرت یعقوب زنجانی ؒ، بی بی پاک دامناںؒ،خیر بات طویل ہو جائے گی پچھلے ہفتے ہم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ کی بات کر رہے تھے، یہ تاریخی اسکول بھی تباہ وبرباد ہو گیا ایک بات یہ ہوتی ہے کہ آپ موجود چیزوں، عمارتوں اقدار اور روایات کو ان کے موجودہ معیار سےاگر بہتر نہیں کرتے تو نیچے بھی نہیں گرنے دیتے یہاں تو ہم نے اس تمام تاریخی ورثے کو ہی تباہ کر ڈالا۔ آج سے پچاس برس قبل کا بھاٹی چوک جہاں کبھی ایک رائونڈ ابائوٹ (یعنی گول چکر) ہوا کرتا تھا اس پر سفید اور کالے رنگ کی پٹیاں رنگ کی ہوتی تھیں اس گول چکر کے اندر مالش کرنے والے اپنے مختلف رنگوں کے تیل لے کر بیٹھا کرتے تھے اور کچھ نشہ کرنے والے بھی ہوتے تھے۔ سڑک اور فٹ پاتھ پر شام کو پانی کا چھرکائو کیا جاتا تھا، صفائی کرنے والے صبح سویرے سڑک اور فٹ پاتھ کو جھاڑو سے صاف کیا کرتے ،صبح کے وقت حضرت علی ہجویریؒ کے مزار مبارک کے قریب کا منظر اس قدر دلکش ہوتا تھا کہ بیان سے باہر، پوری فضا میں ایک عجیب قسم کا سرور اور روحانیت ہوتی تھی اور اذان سما باندھتی تھی، چوک میں تین سینما تھے ملک تھیٹر، نگار سینما، اور پیرا مائونٹ، اب صرف ملک تھیٹر رہ گیا ہے باقی دونوں قدیم سینما گھر زمانے کی نذر ہو گئے، قدیم لاہور جسے ہم اندرونِ شہر کہتے ہیں وہ ایک ٹیلے پر ہے، اگر آپ بھاٹی گیٹ میں جائیں اور ہیرا منڈی سے بازار حکیماں کی طرف آئیں تو وہاں سے سڑک اور مکانات کی اٹھان ہے اس شہر میں بے شمار ایسے مقامات اور گلیاں ہیں جہاں آپ تیس سے پچاس تک سیڑھیاں چڑھ کر جاتے ہیں تیرہ دروازوں کے اندر بے شمار سڑکوں میں نشیب وفراز ہیں، یہ ایک ایسا تاریخی شہر ہے جس میں ایک ایسی مسجد بھی ہے جو زمین سے تقریباً پچاس فٹ نیچے ہے یہ مسجد سیتلا مندر کے سامنے نیا بازار(نیوین بازار) میں ہے، اس کو نیویں مسجد بھی کہتے ہیں۔ (جاری ہے)