اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں

May 26, 2022

ایسے منظرنامے میں، کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے نام پر ہر صورت روکنے کا اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی طرف سے حقیقی آزادی کے نعرے کے ساتھ ہر صورت ڈی چوک پہنچنے کا اعادہ کیا گیا ہے، اچھا ہوتا کہ لانگ مارچ جمہوری عمل کو آئین و قانون کی حدود اور جمہوری بالادستی کے جذبے سے پُرامن طور پر بروئے کار لایا جاتا اور دوسری جانب سے بھی روک ٹوک کیے بغیر مظاہرین کی حفاظت و نگہداشت کی قابلِ تقلید مثال پیش کی جاتی۔ اس نوع کے مظاہروں، اجتماعات اور ریلیوں کے مواقع پر دیگر شہریوں کی روزمرہ مصروفیات برقرار رکھنے کی کاوشوں اور دیگر انتظامی امور میں انتظامیہ اور منتظمینِ مظاہرہ کے درمیان کسی نہ کسی انداز سے رابطے ضرور ہوتے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ یہ رابطے سیاسی حلقوں میں پچھلے مہینوں میں پیدا ہونے والی تلخیاں دور کرنے اور افہام و تفہیم کے ذریعے ملک کے مفاد میں مثبت تدابیر بروئے کار لانے کا ذریعہ بنتے۔ ان سطور کی اشاعت تک واقعات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ دمِ تحریر فریقین کے بیانات میں ایک طرف گرمی و تندی کا عنصر نمایاں ہے۔ دوسری جانب سیاسی معاملے میں ریاستی اداروں کو گھسیٹنے کی کوششیں بھی واضح ہیں۔ عمران خان نے ایک ادارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ طے کر لیں چوروں کے ساتھ ہیں یا حقیقی آزادی کے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر محترمہ مریم نواز لاہور کی پریس کانفرنس میں یہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ لانگ مارچ حکومت کے نہیں ادارہ کے خلاف ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا ایک ٹی وی پروگرام میں کہنا ہے کہ قوم اور ’’ادارے‘‘ ریاست کی مدد کریں۔ اس نوع کے دیگر بیانات بھی ہیں جن سے اجتناب برتا جانا چاہئے تھا۔ قومی اداروں بالخصوص مسلح افواج کی جانب سے مختلف مواقع پر واضح کیا جاتا رہا ہے کہ ان کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ پاک فوج وطن کی بری، بحری اور فضائی حدود کی حفاظت کے مقدس فرائض انجام دینے میں مصروف ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز اس وقت بھی بڑی حد تک حالتِ جنگ میں ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی اپنی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں۔ انہیں سیاست میں الجھانا کسی طور بھی ان اداروں اور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اچھا ہوتا کہ ہمارے صاحبانِ سیاست دنیا کی نہ سہی، اپنی ملکی ماضی کی تاریخ پر نظر رکھتے۔ ہمارے سامنے 1970کی دہائی میں بعض سیاستدانوں کی طرف سے دی گئی مداخلت کی دعوتوں اور اس کے نتیجے میں بعدازاں گیارہ برس جمہوریت سے محرومی کی مثال موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ قومی زندگی کے ہر شعبے پر پڑنے والے منفی اثرات بالخصوص منشیات اور غیرقانونی اسلحے کے پھیلائو کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بظاہر مشکل بلکہ ناممکن نظر آنے والے امور میں تدبر و بصیرت سے وطن اور عوام کے لیے اچھے امکانات تلاش کریں اور پالیسی سازی کریں۔ سیاسی یا نظریاتی اختلاف کا مطلب قومی مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ بہتر صورت کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ اختلافِ رائے کو دشمنی کا رنگ دینا کسی طور مناسب نہیں مگر جب سیاستدان اپنے معاملات سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے دوسرے طریقوں، راستوں، حمایتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت و اختیار کا درست طور پر استعمال کرنے کی مطلوب صلاحیت استعمال نہیں کررہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے رہنما اپنے حقیقی کردار اور طریق عمل کو سمجھیں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مل جل کر فیصلے کریں۔