سندھ کا مقدمہ

May 27, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ )

صحرائے تھر میں واقع عمر کوٹ کا علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دوسرا مغل بادشاہ ہمایوں، شیرشاہ سوری سے شکست کے بعد ایران کو روانہ ہوا، ایران جاتے ہوئے راستے میں عمرکوٹ کے مقام پر ہمایوں کے گھر بیٹا پیدا ہوا، دنیا اس بیٹے کو جلال الدین اکبر کے نام سے جانتی ہے جو آج اکبراعظم کے نام سے مشہور ہے۔اکبر اعظم نے برصغیر پر 5 1 برس حکومت کی، عمر کوٹ میں اس عظیم مغل حکمران کے مقام پیدائش پر ایک یادگار بنی ہوئی ہے۔ قلعہ عمر کوٹ بھی سیاحوں کے لیے پرکشش ہے۔عمر کوٹ ہی سے عمر اور ماروی کی داستان منسوب ہے۔ایک اور داستان منٹھار رائے جیسانی نے تحریر کی ہے۔ تھر میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، ان میں سندھی، پارکری، ڈھاٹکی اور مارواڑی بھی شامل ہیں۔مارواڑی، راجستھانی زبان ہے جو مارواڑہ سے آئے ہوئے میگھواڑ، مالھی، چارن اور بھیل بولتے ہیں۔ضلع عمر کوٹ میں داخل ہوتے ہی کہاوت یاد آتی ہے کہ یہاں کے مرد عقلمند، عورتیں خوبصورت، قلعے کا طلسم اور لامبی تالاب کے کناروں پر برگد کے درخت ہیں۔یاد رہے کہ عمر کوٹ قلعے میں رتن سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی، انگریزوں کے خلاف بھرپور بغاوت کرنے پر 1866ء میں رتن سنگھ کو پھانسی دی گئی۔ عمرماروی داستان بہت مشہور ہے۔ عمر سومرو کی عمر کوٹ پر حکمرانی تھی اور ماروی ملیر کی باسی تھی۔بھالوا میں وہ کنواں موجود ہے جہاں سے عمر نے ماروی کو اغوا کرکے اپنے محل میں قید کر دیا تھا۔ماروی تھر کی محبتوں کی اسیر تھی اسے کھلی فضائوں سے بہت محبت تھی اسی لیے اس نے محل کی عیش وعشرت والی زندگی، قیمتی کپڑے، لذیذ کھانے اور ناز نخرے ٹھکرا دیئے۔ ماروی کے چہرے پر اداسی رہتی اس صورتحال میں عمر سومرو نے ماروی کی تھر سے محبت دیکھ کر بالآخر اسے آزاد کر دیا۔ دوران قید ماروی کا ایک ہی موقف رہا کہ وہ شادی کرے گی تو صرف اپنے منگیتر سے کرے گی ورنہ اسے موت قبول ہے۔شاہ لطیف بھٹائیؒ نے اپنی شاعری میں ماروی کو بہت خاص مقام دیا ہے، اس کی ثابت قدمی کو سلام کیا ہے۔ ماروی کو مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے جب بےنظیر بھٹو نے ضیاالحق کے خلاف جدوجہد شروع کی تو انہیں ماروی سے تشبیہ دی گئی۔

دوسری کہانی مومل رانو کی ہے راجستھان جیسل میر میں مومل راٹھور نام کی شہزادی رہتی تھی اس کے طلسمی محل کا نام کاک محل تھا اس کی سات خوبصورت بہنیں بھی اس کے ساتھ رہتی تھیں ارد گرد کے شہزادے اور دولت مند افراد کاک محل کو فتح کرنے کے خواہش مند تھے مگر مومل کی شرط تھی کہ جو کاک محل کے طلسمات کو توڑ کر مجھ تک پہنچے گا میں اس کی ہو جائوں گی۔کئی طلسماتی بھول بھلیوں میں جان گنوا بیٹھے۔ ایک دن عمر کوٹ کا بہادر شہزادہ رانو مندرا سوڈا، مومل تک جا پہنچا مومل رانو کی بہادری اور ذہانت سے بڑی متاثر ہوئی اب اس نے رانو کی بیوی بننا قبول کر لیا۔رانو ایک شب کے بعد کاک محل سے ایسا گیا کہ لوٹ کر نہیں آیا۔ مومل فراق کی کیفیت میں آہ و فغاں کرتی کاک محل میں پھرتی رہتی ، مومل کے ہجر اور فراق کی کیفیات کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ نے اپنی شاعری میں بہت عمدگی سے بیان کیا ہے۔

عمر کوٹ ضلع میں 53فیصد ہندو آبادی ہے۔ 1965ء تک اس ضلع میں ہندو آبادی 80فیصد تھی پھر بڑے پیمانے پر ہجرت ہو گئی حالانکہ 1947ء میں عمر کوٹ کے رانوں نے ہندوستان میںشامل ہونے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہمارا وطن پاکستان ہی رہے گا۔ راجہ آف سروہی کا کرائون پرنس جب مسلمان ہو کر آیا تو عمر کوٹ آیا، یہیں اس کی شادی ہوئی اسی کی اولاد پھر آگے چل کر خیر پور، لاڑکانہ، جھنگ اور سیالکوٹ میں آباد ہوئی۔اگر عمر کوٹ شہر کی بات کی جائے تو اس کی تاریخ دوہزار سال پرانی ہے۔پہلے امر کوٹ تھا پھر عمر کوٹ ہو گیا۔عمر کوٹ ضلع کا کچھ حصہ تھر میں آتا ہے اور کچھ حصہ زرعی زمینوں پر مشتمل ہے جہاں نظام آب پاشی موجود ہے۔ تھری یعنی تھر کے لوگ عمر کوٹ ہی کو سندھ کہتے ہیں کیونکہ عمر کوٹ کا پانی نہری ہے، شہر کی واٹر سپلائی اسکیم بھی نہری پانی پر ہے۔

ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری پاکستان میں سب سے زیادہ مرچ پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ ضلع کی باقی تحصیلوں میں بھی مرچیں کاشت ہوتی ہیں مگر کنری کی بات ہی اور ہے اس تحصیل میں پنجابی کاشت کار بہت ہیں مثلاً واحد آرائیں اور دیگر مرچوں کے بڑے کاشت کار ہیں۔ تحصیل پتھورو میں مسلم زیادہ آبادکار ہیں۔ یہاں 52فیصد مسلم آبادی ہے جبکہ 48فیصد ہندو آبادی ہے، باقی تینوں تحصیلوں میں ہندو آبادی زیادہ ہے۔ عمر کوٹ میں سندھ یونیورسٹی کا کیمپس بھی ہے پاکستان ایگریکلچرل سنٹر بھی ہے تھر میں زمینی پانی کھارا ہے۔ یہ سنٹر درختوں سے متعلق آگاہی دیتا ہے عمر کوٹ کی ہاتھ سے بنی ہوئی لوئی یعنی چادر مشہور ہے یہاں کا ربڑی حلوہ بھی بہت مشہور ہے۔ تھری کڑھائی، لکڑی کی چوڑیاں اور ہاتھ سے بنا ہوا کپڑا بہت مشہور ہے، اس ضلع کی 84فیصد آبادی دیہی ہے عمر کوٹ کے اندر شور کوٹ چھائونی ہے جو دفاعی اعتبار سے بہت اہم ہے۔اس چھائونی اور رینجرز کے سینٹر کی وجہ سے یہاں اچھے اسکول ہیں جس کا فائدہ یہاں کے عام لوگوں کو ہوا ہے۔(جاری ہے )