عرق ندامت کے چند قطرے

June 11, 2022

ترک صدر ، طیب اردوان کی دی گئی ضیافت میں ایک مبینہ ملزم اور مفرور، سلیمان شہباز کو اپنے والد ، مبینہ ملزم اور وزیر اعظم ، شہباز شریف کے ساتھ میزپر بیٹھے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کی ذہنیت میں کس قدرپستی سرایت کرچکی ہے ۔ میرا تو سر شرم سے جھک گیا ۔ مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر مبینہ ملزموں کو ملک کی نمائندگی اور دوطرفہ ملاقاتیں کرتے دیکھ کر ہر عزت نفس رکھنے والا پاکستانی اسی کیفیت سے گزر رہا ہوگا۔

اپنے مبینہ ملزم بیٹے کو وفد میں شامل کرکے اور میز پر اہم جگہ دے کر شہباز شریف پاکستانی عوام ، اپنے میزبان، دنیا ،ا ور سب سے اہم ، اپنے سرپرستوں کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے ؟ ۔ اس کی بجائے کیا ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر اُن کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اُن کا مفرور بیٹا کسی بھی دوسرے مفرور کی طرح قانون کا سامنا کرے؟

یہ واحد واقعہ نہیں جس نے تمام قوم کو شرمندہ کیا ہو۔ تمام شریف خاندان مجرموں، مبینہ ملزموں اور مفروروں کا ٹولہ بن چکا ۔ بدقسمتی سے اب ان کے ہاتھ میں زمام اقتدار آگئی ہے تاکہ وہ اپنے نام مقدمات میں سے نکلوا سکیں اور اپنی پسند کے ججوں سے اپنی سزا کے فیصلوں کو تبدیل کراسکیں ۔ مختلف اوقات میں اس طرح کے دیگر واقعات کا حوالہ دے کر کہا جاسکتا ہے کہ ریاست شاید مجرمانہ ذہنیت کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے جب ریاست مختلف ممالک کے دبائو پر سمجھوتا کرنے پر مجبور ہوگئی ۔یہ ممالک بظاہر تو ہمارے اتحادی دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت انہوں نے ہماری کمزور قیادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے قومی مفاد کو زک پہنچائی ۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہ حکومت ایک سازش کا نتیجہ ہے جس کی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے لگاتار دو اجلاسوں نے تصدیق کردی ، کیا ہم ایک بار پھر استحصال کا شکار ہونے جا رہے ہیں؟ ہماری کمزوریاںہمارے مخالفین کو سہولت فراہم کرتی ہیں کہ وہ ہم سے بھاری رعایت لے لیں جس کی وہ طویل عرصے سے خواہش رکھتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب سے ممکنہ منظر ہے جس کا نتیجہ ملک کی سلامتی کیلئے ایک ہولناک چیلنج بن کر سامنے آسکتا ہے۔ ہم پہلے ہی معاشی تباہی کے دہانے پر ہیں۔بس ایک ہلکا سا دھکا ہمیں نیچے لڑھکا سکتا ہے ۔ اس کے بعد ڈھلوان پر ہمارے قدم شاید ہی کہیں ٹک سکیں۔ ان حالات میں اول تو یہ مجرمانہ سازش کی کیوں گئی ؟ انھیں ریاست اور اس کے اداروں ، جو ان کے مقاصد پورے کرسکتے ہیں ، کا اختیار کیوں دیا گیا؟انھیںبغیر عددی اکثریت کے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر غیر قانونی، غیر جمہوری اور غیر آئینی کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں فرد جرم کیوں عائد نہیں کی گئی جو اب مہینوں سے زیر التوا ہے؟ موجودہ حکومت کو پرامن مظاہرین پر تشدد کی اجازت کیوں دی گئی اور سپریم کورٹ پی ٹی آئی کی جانب سے اس کے اسمبلی اور احتجاج کے حق سے متعلق دائر درخواست پر فیصلہ دینے کو کیوں تیار نہیں ؟یہ پریشان کن سوالات ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنے دامن پر لگے کرپشن کے دھبے صاف کرنے کیلئے مبینہ مجرموں کے ایک گروہ نے پورا نظام ہائی جیک کر لیا ہے۔ اور یہی وہ کرنا چاہتے تھے ، خاص طور پر اس وقت جب پارلیمنٹ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو گویا اس کے مفلوج ہونے کا تاثر پیدا ہو رہا ہے ۔ اس صورت حال کے خلاف عوامی دبائو البتہ بڑھ رہا تھا جسے اُنھوں نے انتہائی تشدد کا استعمال کرکے دبادیا ہے۔ کسی جمہوری بندوبست میں اس جبر کی اجازت نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

سمجھوتا کرنے والی حکومت کے اقتدار میں آنے کی اصلیت پر پردہ کیوں ڈالا جارہاہے ؟ کون ساراز چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے؟ الفاظ اس راز کو بے نقاب کرسکتے ہیںلیکن یہ ان ہولناک نتائج کو روکنے کیلئے کافی نہیں جو ریاست اور اس کے عوام کو اس صورت میں بھگتنا پڑیں گے اگر اس گٹھ جوڑ کو قدم جمانے کی مزید مہلت مل گئی۔ اس عجیب و غریب تجربے کو شروع کرنے کیلئے جو کچھ بھی ہوا ہو، وہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس نے معاشرتی ڈھانچے میں بے حد تلخی اور ردعمل پیدا کیا ہے جو ریاست کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچا ، اور اس کے تزویراتی مفادات کو دائو پر لگا سکتا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹیں اور اندھی کھائی میں لگائی گئی چھلانگ کے مضمرات پر غور کریں۔ پاکستان پہلے ہی انتہائی معاشی بدحالی اور انتظامی جواز کی عدم موجودگی کے نتائج بھگت رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عمل کریں اور اس سازش کو ختم کریں اور انتخابات کی طرف جائیں۔ حتمی بات ریاست اور اس کے عوام کا مفاد ہے جسے سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ ملک کو سانس لینے دیں۔ اسے مصنوعی طور پر زندہ نہیں رکھا جا سکتا ۔ یہ تجربہ جوبھی تھا، اسے ناکام ہونا ہی تھا۔ اس کی درستی کیلئے قومی بحالی کے بیج بوئے جا سکتے ہیں۔ اس غلط مہم جوئی کا تسلسل ملک کیلئے تباہ کن ہوگا، جس کے آثار اس سازش کے بیج پھوٹنے سے ہی ہویدا ہونے لگے تھے۔ اب اسے انجام تک پہنچنے دیں اور عوام کی حقیقی آواز کو گونجنے دیں جو ملک میں بغیر کسی تاخیر اور بغیر کسی مداخلت کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد سے ہی ممکن ہے۔

پیشانی کو عرق ندامت سے تر ہونے دو۔ چند قطرے ہی سہی، وہ بھی سند رہیں گے ۔ شرمندگی سے چہرے کا رنگ بدلے اور پھر پاکستان آگے کو بڑھ جائے۔