سابق اور موجودہ حکمرانوں میں فرق نہیں!

June 15, 2022

گزشتہ سات عشروں کا معاشی ریکارڈ اگر سامنے رکھا جائے تو واضح نظرآتاہے کہ ہر حکومت نہ صرف اشرافیہ کو نوازتی رہی ہے بلکہ جب بھی ملک بحرانی صورتحال سے دوچارہوا تو بجائے اس کے کہ اس صورت حال میں نوازی جانےوالی اشرافیہ سے بھی کچھ قربانی کا تقاضا کیا جاتابلکہ برسراقتدار حکمران خوا ہ وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان یا بیورکریٹ ،انہوںنے اس صورتحال میں عوام ہی کو قربانی کا بکرابنایا۔اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی گزشتہ سال کی رپورٹ ملاحظہ کیجئے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے 26کھرب 60ارب روپے اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا چھ فیصد ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طاقتور طبقہ اپنے منصفانہ حصے سے زیادہ کے لئے اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مراعات سے سب سےزیادہ فائدہ کارپوریٹ سیکٹر اُٹھاتاہے۔ایک تخمینے کے مطابق اس نے سات کھرب 18ارب روپے کی مراعات حاصل کی ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کاامیر ترین طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی آمدن کے نو فیصد کامالک ہے، جاگیر دار اور بڑے زمیندار جو آبادی کے1.1پر مشتمل ہیں ملک کی 22فیصد قابلِ کاشت زمین کے مالک ہیں، پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی مضبوط نمائندگی ہے، بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو مراعات کی فراہمی کے ذمہ دار تھے وہی مراعات وصول کررہے ہیں۔ ایک ہاتھ سے وہ مراعات دے رہے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سےخود ہی وصول کررہے ہیں۔ ملک کے غریب ترین ایک فیصد کی آمدن صرف 0.15فیصد ہے۔ مجموعی طور پر، 20فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 49.6فیصد ہے جب کہ بیس فیصد غریب ترین آبادی کے پاس قومی آمدنی کا صرف سات فیصد ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک کا متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں جنوبی ایشیا میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے پر افغانستان ہے۔رپورٹ میںبعض اداروں کے حوالے سے بھی کہا گیاہے کہ زمین، سرمایہ، انفراسٹرکچر اور ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں اربوں روپے کی مراعات لے رہے ہیں۔

اشرافیہ کی تعریف تو مختلف مفکرین نے مختلف انداز میںکی ہے لیکن ان کا لب لباب یہ ہوسکتاہے کہ وہ تمام لو گ جودولت،ثروت ،عہدوں ،رتبے اور مختلف اثر ورسوخ کے ہوتے ہوئے جاہ وجلال کے مالک ہیںوہ اشرافیہ یعنی بالادست طبقات میں شمار ہونگے، پاکستان کے تناظرمیں ان میںغالب اکثریت اُن کی ہے جو ناجائز راہ ورسم کی وجہ سے ان طبقات میں شامل ہوگئے ہیںیا مزید تواناہوگئے ہیں۔ظاہر ہے اس میں بنیادی عامل سیاسی اثرورسوخ ہے،جسے سول وفوجی بیوروکریسی ،جاگیرداروسرمایہ دار ہر دورخواہ وہ آمرانہ ہویاسول بروئے کار لاتے رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج ان تمام طبقات نے ایک ایسی مافیا کی شکل اختیارکرلی ہے جوبظاہر مخالف نظریات رکھنے کے، طبقاتی طورپر ایک دوسرے کوسہارادئیے ہوئے ہیں۔ یہ طبقات ایک حوالے سے یک جان ویک سو ہیںکہ ملک وملت کی جوبھی صورتحال ہو اس میں ایک دوسرے کو قربانی سے بچاتے ہوئے عوام ہی کو قربانی کا بکرا بنانا ہے۔ اگر یہ سب کا مشترکہ ایجنڈانہ ہوتاتو آج ہم قیام پاکستان سے اب تک کے ادوارمیں سے کم ازکم ایک دو کاحوالہ تو دے پاتے ،کہ ان میںعوامی ترقی کیلئے یہ یہ’ کارنامے‘ سرانجام دئیےگئے ،نیز اگرایسا ہوا ہوتا تو اس دورکے بعد آنے والوںکیلئے بڑی مشکل ہوتی کہ وہ اُس ٹریک سے ہٹتے جس پر سابق حکومت ہوتی ۔بھارت سمیت دیگر ممالک کی مثالیںاس حوالے سے موجود ہیں،بھارت میںترقی کا آغاز کانگریس نےکیا لیکن بعدازاں بی جے پی جیسی انتہاپسند جماعت بھی ترقی کےاس سلسلے کوآگے لیکر گئی بلکہ اس میں مزید نام کمایا۔ ہم نے جس رپورٹ کاحوالہ دیا ہے یہ رپورٹ عمران خان کے دور میں سامنے آئی تھی اس سلسلے میں یو این ڈی پی کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور علاقائی چیف، کنی وگینا راجا نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور وزراسے اس رپورٹ کی فائنڈنگ پر بات چیت کی تھی۔ جس کے بعداس نمائندے کاکہنا تھا کہ پاکستانی رہنماؤں نے اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اِس حوالے سے کارروائی کرنے کا عہد کیا ہے۔عرض یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے سامنے جب غیرملکی اداروں کے وفود آتے ہیںتو یہ چونکہ اپنی ناک تلے اشرافیہ کو نواز نےسے انکار نہیں کرسکتے ،تویہی کہتے ہیں جو عمران خان نے کہا ،اب یہی شہباز شریف کہیں گے اور اسی طرح اشرافیہ مزے کرتی رہےگی اور بیچارے عوام قربانی دیتے رہیںگے۔