ہم ایک قوم کیوں نہیں بن سکے

June 26, 2022

کسی شاعر نے کہا تھا کہ

اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے

جس نے ڈالی نظر بُری ڈالی

یہ بات کسی اور کے بارے میں ٹھیک ہو یا نہ ہو البتہ پاکستان کے معاملے میں سو فیصد ٹھیک ہے کہ پاکستان کے اکثر مسائل کی وجہ اسکی خوبصورتی یا دنیا میں اس کے اہم ترین جیو پولیٹیکل محلِ وقوع ہے ۔ سابق سوویت یونین اور روس ، چین ،بھارت ، وسطِ ایشیا اور خلیجی ریاستوں کے سنگم پر واقع یہ ملک اپنی ابتدا ہی سے اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا تھا۔چنانچہ ایک منصوبے کے تحت اسے عدم استحکام کا شکار رکھاگیا۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر دو کام کیے گئے ایک اس کے بنیادی نظریے کو مضبوط معاشی ٹھوس زمینی اور قومی مفادات کی بجائے مبہم نظریات پر استوار کرکے ایک پنڈورابکس کھول دیا گیا اور اسے ایک قوم بننے سے پہلے ہی فرقہ وارانہ تعصّبات کی دلدل میں پھینک دیاگیا۔ ایک قوم بننے کے راستے میں دوسری رکاوٹ سیاست میں فوجی مداخلت تھی۔ جس کاپہلا کُھلا اظہار بھی مذہبی فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں ہوا۔ 1953میں قادیانی مخالفت فسادات کے دوران لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا جزوی ماشل لاء نافذ ہوا جو 1958کے مارشل لاء کا ٹریلر تھا۔ اس طرح پاکستان میں عوام کے حقیقی مسائل کو مذہبی اور فوجی طاقت کے ذریعے کچلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ۔ جس نے پاکستان کی بنیادوں کو ہی کمزور کردیا۔مذہبی عناصر ہر فوجی حکومت کا ہر اول دستہ بنے رہے ہیں یحیٰ خان اور ضیاء کا تو ذکر ہی کیا روشن خیال پرویزمشرف کو بھی ایم ایم اے نے سترھویں ترمیم کے ذریعے لا محدود اختیارات فراہم کیے اور بدلے میں بلوچستان اور کے پی کے میں حکومتیں حاصل کرلیں۔تقسیم کے وقت پاکستان اپنے چھوٹے مگر جامع اور اہم ترین جغرافیے ، قدرتی وسائل ، مذہب کلچر اور زبانوں کے کم تضادات کی وجہ سے ، انڈیا کے مقابلے میں زیادہ اور تیز رفتار ترقی کرنے کے صلاحیت رکھتا تھا۔ لیکن ہمارے سامراجی آقائوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے ہمیں ایک قوم بننے ہی نہ دیا اور اس سرزمین کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے اڈہ بنا لیا۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان نے اپنے ہمسائے میں واقع اس وقت کی سپر پاور سوویت یونین کی بجائے خود کو امریکی اتحادی بنا کر اپنی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ سوویت یونین کو بھی دشمن بنا لیا۔ اس حقیقت سےکسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں ہر فوجی ڈکٹیٹر شپ کو امریکہ کی آشیرباد حاصل رہی ۔ حالانکہ سوویت یونین کی دوستی ہمارے قومی مفادات کیلئے زیادہ اہم تھی۔ سابق سیکریٹری داخلہ ایم اے کے چوہدری اپنی کتاب ’’ مارشل لاء کا سیاسی انداز‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ پچاس کے عشرے میں جبکہ پاک امریکی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ روس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کھوڑو صاحب کی قیادت میں ایک وفد روس گیا اور واضح طور پر یہ تاثر لے کر لوٹا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کی صورت میں روس کشمیر کے تنازعہ میں اپنا موء قف بتدیل کرلے گااور سابقہ ہندوستان نواز پالیسی ترک کردیگا۔ کشمیر کے تنازعے کے حل کیلئے یہ ایک بہت اہم اور سنہری موقع تھا۔ ۔لیکن افسوس کہ ہم نے امریکہ کی قربت کے نشے میں یہ موقع دانستہ طور پر کھودیا‘‘ ریاستی امور میں نظریات اور اداروں کی مداخلت عالمی سامراج کے ایک سوچے سمجھے پلان کی حصّہ تھی جس کا واضح مقصد نئی ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کھنا اور ایک قوم بننے سے روکنا تھا تاکہ ایک مضبوط قوم جمہوریت کی بدولت سیاسی اور معاشی استحکام حاصل نہ کر سکے اور سامراج اس خطّے میں بآسانی اپنے مفادات کاکھیل کھیل سکے۔ ایوب خان کے مارشل لاء نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی بنیادوں کو گہرا کردیا جبکہ جنرل یحیٰی کے دور میں علیحدگی کی سازش پایہ ء تکمیل کو پہنچ گئی لیکن اصل کہانی یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی جو جغرافیائی اہمیت تھی وہ مشرقی پاکستان کی نہیں تھی۔ لہٰذا سامراجی طاقتوں نے بہت پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ دونوں حصّوں کا بوجھ بیک وقت اٹھانے کی بجائے اُن سے علیحدہ علیحدہ ڈیل کیا جائے چنانچہ مشرقی پاکستان میں جنگ کے دوران سوویت یونین اور بھارت نے تو علانیہ علیحدگی پسندوں کی مدد کی کیونکہ ہم انہیںعلانیہ اپنا دشمن قراردے چکے تھے لیکن امریکہ نے بھی درپردہ انکی مدد کی اور خاموش تماشائی بن کر اپنے ’’ جگری دوست‘‘ پاکستان کی تباہی کا منظر دیکھتا رہا ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں امریکہ کے پر اسرار کردار کے بارے میں سابق ڈائریکٹر انٹیلی جنس رائو رشید اپنی کتاب ’’ جو میں نے دیکھا‘‘ میں لکھتے ہیں

’’ جب شیخ مجیب انتخابات سے پہلے 1970ء میں لندن آئے تو آخری دوچار دن لندن سے ایک اور جگہ سائوتھ میں ساحل کے کنارے چلے گئے ۔ وہاں وہ اپنے ساتھ کسی کو نہ لے کر گئے۔ وہاں سے مجھے رپورٹیں ملیں کہ وہاں انکی ملاقات امریکیوں سے رہی‘‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں نئے پاکستان نے اپنا جمہوری سفر شروع کیا اور 25سال کے بعد پہلا متفقہ آئین بنا لیا تو یوں لگا کہ شائد اب ہم ایک قوم بننے کی طرف سفر شروع کردیں گے لیکن چند ہی سال کے بعد مذہبی عناصر اور فوج کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتا دیا گیا۔ مسڑ بھٹونے 28اپریل 1977کو پارلیمنٹ میں کھلے عام امریکہ کو انکی حکومت کے خلاف سازش میں ملّوث قراد دیا تھا۔ ضیاء نے اس احسان کے بدلے میں ’’جہادِ افغانستان‘‘ کے نام پر امریکی مفادات کی جنگ میں ہمیں اس طرح ملّوث کیا کہ ہم آج تک اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ رہی سہی کسر پرویز مشرف نے پوری کردی۔ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور امریکہ کا دنیا کی واحد سپر پاور بننا بیسویں صدی کا سب سے بڑ اسانحہ ہے۔ جس نے مسلم ممالک اور تیسری دنیا کے اکثر ملکوں کو امریکی نیوز ورلڈ آرڈر کے تحت بے یارو مددگار کردیا ہے اور انکے سیاسی ، معاشی حالات یہاں تک کہ ان جغرافیے کو بھی تبدیل کرنا شروع کریا ہے ۔ پاکستان میں ریاست کے خلاف ہونے والی دہشت گردی اسی زمرے میں آتی ہے کیونکہ موجودہ پاکستان میں بھی بین الاقوامی اہمیت کے لحاظ سے کے پی کے ، بلوچستان اور کراچی انتہائی اہم علاقے ہیں۔ جہاں دہشت گردوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کٹری ہے کہ پاکستان کو قومی سطح کی لیڈر شپ اور سیاسی پارٹی کے اثرو رسوخ سے محروم کردیا جائے تاکہ سامراجی مقاصد کیلئے اس کی نئی تقسیم کے عمل میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ ہماری بین الاقوامی اہمیت یا خوبصورتی کیوجہ سے ہماری سلامتی کے خلاف ہونے والا یہ کھیل کب تک جاری رہتا ہے اور کس انجام کو پہنچتا ہے اس کا تعیّن آنے والا وقت کرے گا جو بہت دور نہیں۔