کیا دنیا کو غیرمعمولی مہنگائی یا ہائپر اِنفلیشن کا خطرہ ہے؟

June 27, 2022

اس سے قبل امریکا اور یورپ میںمہنگائی جب موجودہ دور کی طرح بلند سطح تک پہنچی تھی، وہ چالیس سال پہلے کا زمانہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا اور یورپ کی نوجوان اور ادھیڑ عمر آبادی کو اپنی زندگی میں پہلی بار یہ اندازہ ہورہا ہے کہ مہنگائی دراصل ہوتی کیا ہے۔ امریکا کو لے لیں۔ آج، مہنگائی ایک اہم خبر ہے کیونکہ سپرپاور ملک کم از کم چار دہائیوں میں مہنگائی کی بلند ترین شرح سے نمٹ رہا ہے۔

برطانیہ میں بھی مہنگائی اپنی چالیس سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور وہاں کے مرکزی بینک نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال کے دوران یہ شرح 10فی صد سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔ ماہرین، آنے والے مہینوں میں ایسی خطرناک مہنگائی کی پیشگوئی کررہے ہیں، جو عالمی معیشتوں کے لیے انتہائی مسائل کھڑے کرسکتی ہے۔

کیا ہورہا ہے؟

مختلف ممالک کے معاشی حقائق مختلف ہوتے ہیں، بہت سے عام عوامل مہنگائی کی شرح میں اضافہ کی وجہ بنے ہیں۔ توانائی کی بڑھتی قیمتیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہیں، جب کہ روس یوکرین جنگ نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ایندھن، خوراک اور خام مال کی بڑھتی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کی دیگر بڑی وجوہات ہیں۔ اس صورتِ حال کو دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی جانب سے شرحِ سود میں کیے جانے والے اضافے نے مزید گمبھیر بنا دیا ہے کیوں کہ مارگیج ادائیگیوں کی مالیت بڑھ گئی ہے، جس سے تنخواہ دار طبقہ کی آمدنی پر مزید دباؤ پڑا ہے۔

ہائپر اِنفلیشن کیا ہے؟

مہنگائی کی عمومی شرح کو انگریزی میں اِنفلیشن کہا جاتا ہے، تاہم جب مہنگائی کی یہ شرح غیرمعمولی حد تک بڑھ جائے اور کئی برسوں اور عشروں کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں تو ایسی صورتِ حال کو ’ہائپر انفلیشن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہائپر انفلیشن کے دور میں اشیا یا خدمات کی قیمتوں میں بہت زیادہ اور تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ماہانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 50فی صد سے زیادہ بڑھ جائے تو اسے ہائپر انفلیشن کہا جاتاہے۔

ماہرینِ معاشیات کے مطابق، ہائپر انفلیشن اس وقت ہوتی ہے جب معیشت میں ’منی سپلائی‘ میں تیزی سے اضافہ کیا جائے۔ اس کی وجہ یاتو حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے نئے نوٹوں کی چھپائی ہو سکتی ہے یا پھر طلب میں اضافہ۔ طلب میں اضافے سے مرا د یہ ہے کہ جب کسی چیز کی رسد کے مقابلے میں اس کی طلب زیادہ ہو۔

موجودہ صورتِ حال میں یہ دونوں عوامل مہنگائی میں اضافہ کے ذمہ دار ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے کووِڈ-19وَبائی مرض کے دوران اپنی معیشتوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کئی ٹریلین ارب ڈالرکے بیل آؤٹ پیکیج دیے تھے، جس سے سسٹم میں اچانک 20فی صد سے زائد اضافی پیسہ گردش میں آگیا۔

مختصراً یہ کہ، جب معیشت کی سکت سے زیادہ پیسہ گردش میں ڈال دیا جائے تو اس ملکی کی کرنسی کی قدر گِرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں پر ہائپر انفلیشن کے اثرات انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ عمومی اور روزمرہ استعمال کی اشیا جیسے روٹی اور چائے وغیرہ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھ سکتی ہیں۔

ایسا پہلے کتنی بار ہوا ہے؟

اگر دنیا میں ہائپر انفلیشن کے اوّلین واقعہ کی کھوج لگائی جائے تو اس کے لیے ہمیں کئی سو سال پیچھے جانا ہوگا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہائپر انفلیشن کا واقعہ پہلی بار 1634ء میں ہالینڈ میں اس وقت پیش آیا جب وہاں گل لالہ پھول کی قیمتیں روزانہ بڑھنے لگیں اور یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا۔

حالیہ تاریخ میں ہائپر انفلیشن کی صورتِ حال 1920ء کے عشرے میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اس وقت پیش آئی جب 1923ء میں جرمنی میں مہنگائی بے قابو ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں مہنگائی کی شرح 29ہزار500فی صد تک جا پہنچی۔ اگر مزید حالیہ دور کی بات کریں تو زمبابوے کی خوفناک تاریخ ہمارے سامنے آجاتی ہے، جہاں نومبر 2008ء میں مہنگائی کی شرح 79ارب فی صد پر ریکارڈ کی گئی تھی۔

حل کیا ہے؟

یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ مہنگائی کی بلند شرح کو کم کرنے کا حل یا طریقہ کیا ہے؟ یقیناً یہ حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ مہنگائی پر قابو پانا آسان نہیں۔ ماضی میں ہائپر انفلیشن پر قابو پانے کے لیے کئی مختلف اقدامات لیے گئے، جن میں بڑے پیمانے پر ٹیکس اصلاحات، حکومتی اخراجات میں کٹوتی اور پُرانی کرنسی کو چھوڑ کر نئی کرنسی متعارف کرانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات کے نتائج مختلف رہے ہیں اور ہر صورتِ حال پر قابو پانے میں وقت بھی مختلف لگا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ 2022ء میں صورتِ حال ابھی اتنی خراب نہیں ہوئی کہ اس پر قابو نہ پایا جاسکے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کی موجودہ بلند سطح پر قابو پانے کے لیے مالیاتی اقدامات اٹھانا ناگزیر ہیں لیکن ابھی کسی بھی ملک کی کرنسی بے معنی نہیں ہوئی۔ اگر مختلف سخت گیر زری اور مالیاتی اقدامات بروقت اٹھائے جاتے ہیں تو دنیا کو ایک اور ہائپر انفلیشن کے عذاب سے بچایا جاسکتا ہے۔