معیشت کی بحالی کیسے؟

July 04, 2022

ملک میں جاری معاشی بحران کا خاتمہ کیسے ہو؟ پاکستانی قوم کیلئے یہ بلاشبہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بقول اس سنگین صورت حال سے نکلنے کیلئے ہم آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں جبکہ ایک ارب ڈالر کی خاطر عالمی مالیاتی ادارہ ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔قومی معیشت اس حال کو کیوں پہنچی؟ اس حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جس کی وجہ سے حالیہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وضاحت پر یہ سوال بہرحال اٹھتا ہے کہ ان حالات میں پی ڈی ایم کو عمران خان کو رخصت کرنے کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اپنی غلطیوں کے نتائج پچھلی حکومت کو خود ہی بھگتنے دیے جاتے ؟ اس کا جواب پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں کی طرح رانا ثناء اللہ نے بھی یہی دیا ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں بڑھانے اور دوسرے مشکل فیصلے کرنے کے بجائے ہم انتخابات میں جاتے تو ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا۔ یہ جواب درست ہو یا نہ ہو بہرحال اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کی گاڑی کو پھر سے پٹری پر ڈالنا موجودہ حکومت کی ناگزیر ذمے داری ہے ۔پی ڈی ایم کی شکل میں ملک کی بیشتر سیاسی قوتوں کی شمولیت نے اسے مشکل فیصلے کرنے کی سہولت فراہم کردی ہے لیکن فی الحقیقت موجودہ حالات میں اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ معیشت کی بحالی کی متفقہ حکمت عملی وضع کرنے میں حکومت کیساتھ تعاون کرے بالخصوص اس لیے بھی کہ ان حالات کو جنم دینے میں اس کی غلطیوں کا بڑا حصہ ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے اس کی شرائط سے انحراف اور ایل این جی کے سستے سودوں کے مواقع ضائع کرکے ملک کو بجلی کے بحران میں مبتلا کردینا ان غلطیوں میں سرفہرست ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے پر سابق گورنر پنجاب نے اسی وقت اپنے اس تبصرے سے معاملے کی سنگینی پوری طرح واضح کردی تھی کہ چھ ارب ڈالر کے بدلے ہم سے سب کچھ لکھوالیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ ملکی معیشت اور امن و امان کی بحالی کی خاطر اگر تمام سیاسی قوتیں سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گی تو بہتری ممکن نہیں۔ان کا یہ موقف وزن رکھتا ہے کہ اس وقت ملک کی تمام سیاسی قیادت متحد ہے لیکن عمران خان کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں جبکہ ملک کو آگے لے جانے کرلئے سب کا مل بیٹھنا ضروری ہے۔ قومی مفاد کا لازمی تقاضا ہے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کی خاطر پوری سیاسی قیادت ایک سوچے سمجھے میثاق معیشت پر متحد ہو اور مشترکہ جدوجہد سے اسے کامیاب بنائے۔ خدا کا شکرہے کہ کڑی آزمائشوں کے ماحول میں امید کی کرنیں روشن ہورہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے چند ہفتوں کی مدت میں متوازن خارجہ پالیسی اپنا کر ایک طرف چین سے معاملات بہتر بنائے جس کا ایک واضح نتیجہ دو ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالی معاونت کی شکل میں سامنے آچکا ہے اور سی پیک کے منصوبوں پر از سرنو کام کی رفتار تیز ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جبکہ امریکہ سے بھی روابط میں واضح بہتری آئی ہے ۔ امریکہ کو ہماری برآمدات کی مالیت میں 23 فی صد اضافہ ہوا ہے اور صدر جوبائیڈن کے تجارتی و معاشی امور کے خصوصی نمائندے نے اسلام آباد میں اپنی آمد پر امریکی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کی فضا کو دوستانہ قرار دیا ہے۔ان واقعاتی حقائق کے پیش نظر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں اس امید کا اظہار بے جا نظر نہیں آتا کہ دو تین ماہ میں معیشت میں بہتری شروع ہوجائے گی تاہم مکمل معاشی بحالی کی سمت میں پیش رفت کی رفتار مزید تیز ہوسکتی ہے اگر اپوزیشن امن وامان کی صورت حال کو خراب کرنے اور قوم کو تفریق و انتشار میں مبتلا کرنے سے گریز کرتے ہوئے تنقید و احتساب کی ذمے داری جمہوری اور آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے انجام دے۔