پھر اُسی عطار کے لونڈے سے دوا؟

July 05, 2022

دسمبر 71ءمیں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعدبچا پاکستان اپنی 50 سالہ تاریخ میں عظیم ترین کامیابیوں اور تباہ کن سیاسی و آئینی ڈیزاسٹرز میں تسلسل کا حامل ملک ثابت ہوا۔ آج ہمارا یہی قومی تشخص پوری دنیا پر واضح ہےکہ اہم ممالک ہمارے ہی نہیں ہم بھی ان کی بڑی ضرورت بن گئے ہیں۔ جسے ہم نے سفارتی جہد سے کیش کرایا اورکرانا ہے۔ اس کو دو مزید سطور میں یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا، متفقہ دستور کی تیاری اور عالمی اور علاقائی سیاست میں ایک آئیڈیل اور نتیجہ خیز پارٹنر کے کردار کا حامل ہونا ہماری کمال کامیابیاں بنیں، لیکن آئین کے نافذ ہوتے ہی اس (آئین) سے اب تک کی اقتدار میں آنے والی جملہ حکومتوں کا انحراف اور ملک میں مختلف طبقات کے لئے قانون کے یکساں نفاذ سے مکمل گریز ہمارے دو بڑے اور مسلسل سیاسی و آئینی ڈیزاسٹر ہیں جنہوں نے آج کے نظام حکومت و سیاست کو سخت جان اسٹیٹس کو (نظام بد) کی بدترین اور حتمی شکل دی۔ آج ہم دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان 73 کے تحت نہیں، اسی نظام بد کے تحت نیم غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک محدودترین طبقہ اپنی تمام منافقت، مکاری، نااہلی، لالچ، خود غرضی اور کینہ پروری کے تشخص کے ساتھ ملک کا بالائی غالب سیاسی طبقہ ہے تو دوسرا ساڑھے اکیس کروڑ کے متوسط، غریب، غریب ترین عوام الناس کے ساتھ استحصال زدہ اور بنیادی ضروریات و سہولتوں تک سے محروم طبقہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں آئین و قانون کے مقابل مسلسل طاقت پکڑتے نظام بد کے مقابل بہت کچھ ان ہونا بھی ہو رہا ہے، روایتی رویے کی سخت جانی کا یہ عالم ہے کہ احتسابی عمل اور اداروں کی بیخ کنی کے پارلیمانی اقدامات تو ایک طرف آئندہ بھی بڑھ چڑھ کر کرپشن جاری رکھنے اور اس کے خلاف کسی قسم کے چیک اور دبائو سے فری رہنے کی وکالت سرعام میڈیا پر بھی ہو رہی ہے اور ہارس ٹریڈنگ اور متنازعہ سازش سے بنی نحیف اور سخت دبائو میں مبتلا حکومت، ممکنہ لٹھ مار سرکاری اقدامات کر رہی ہے۔ اشیائے خورد و نوش اور پٹرول وگیس و بجلی کی مہنگائی کو اپنے انتہائی غیر مقبول اور متنازعہ اقتدار کو ہر ہر حربے سے مسلط کرکے عوام پر مہنگائی کے جو پے در پے وار کئے ہیں اس میں اس کا یہ پول مکمل کھل چکا ہے کہ یہ اپنے مسلسل سوال بنے کرپٹ بیک گرائونڈ کے باعث، عمران حکومت سے کہیں بڑھ کر آئی ایم ایف کی اتنی تابعداری میں ہے کہ عوام کا گلا گھوٹنے پر بھی آمادہ ہے، اب سانس ہی باقی رہ گیا۔ دفاع صرف یہ کہ یہ قرضوں کی معیشت سے ہوا جو سب عمران کا کیا دھرا ہے۔ اب عوام کو قائل، ان کی توجہ بانٹنے اور عمران کوبھی دبائو میں لانے کیلئے عمران دور میں قرضوں اور آئی ایم ایف سے لین دین اور شرائط قبول کرنے کے معاملات کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے کی خبریں آئی ہیں، جس میں وزیر اعظم خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں لیکن ضرور تحقیق ہونی چاہئے، عوام اور دنیا کو بیوقوف نہ سمجھا جائے۔ یہ جو آپ اور آپ کے اتحادیوں نے ریاستی مالیت کے ساتھ اپنے عشروں پر محیط مجموعی دور میں ریاستی مالیات کے ساتھ کھلواڑ اور آئین کے خلاف دھماچوکڑی مچائی۔ کمیشن اسے کیسے نظر انداز کرکے بنایا جاسکتا ہے۔ مرضی کے جج اور محتسب اور قانون بنانے کے بعد ایسا ٹیلر میڈ کمیشن جو پاکستان کے سینکڑوں بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ، سزائوں اور کتنی ہی فرد جرم کے طویل ریکارڈ کو مکمل مکاری سے نظر انداز کرکے موجود تباہ کن قومی معاشی بحران کی وجوہات صرف عمران کے پونے چار سالہ دور (مع اڑھائی سالہ کووڈ کرائسز) میں تلاش کرے گا، یہ کتنا بڑا مذاق ہوگا۔ خبر ہے کہ عدلیہ سے مفرور قرار دیئے گئے،سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار معاشی بحران اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے پانچ سال بعد وارد ہونے کو ہیں۔ ہماری بڑی تجربے کار اور ترقی کے دعوے کرتی قومی معیشت کو کرپشن کیساتھ ساتھ چلاتی ماہر موجودہ حکومت، جسے عمران حکومت کو مہنگائی کے غوطےسے تو الٹنے میں مکمل ناکامی ہوئی، کے پاس قومی معیشت کو سنبھالنے خصوصاً غریب عوام کو کوئی بنیادی سا بھی ریلیف دینے کی کوئی حکمت عملی نہیں نکلی۔ بس اقتدار کی سیاست تھی۔ اب یہ دور کی کوڑی لائی گئی ہے کہ رہبر و رہنما نے شعبدے بازی والی ریاستی معیشت کے ماہر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ان کا عدلیہ سے بھگوڑے ہونے کا اسٹیٹس تو اب کوئی ایشو ہی نہیں، جب نیب کے بال و پر کاٹ کر اسے بے پرواز کردیا ہے تو یہ کونسا مسئلہ ہے۔ ڈار صاحب اپنے ہی دور میں کچھ بری خبروں کی بھنک پڑنے پر وزیراعظم کے جہاز سے پرواز کرگئے تھے، دبئی جاتے ہی بیمار ہوگئے تھے اب پانچ سال کے علاج کے بعد انہیں ڈاکٹر نے بھی پاکستان جانے کی اجازت دیدی ہے۔ اس خبر نے تو میر تقی میرؔ کا شعر یاد کر ا دیا۔ ؎

میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

مفتاح اسماعیل سے وہ کام کرا لئے گئے کہ گھر گھر تباہ کن مہنگائی کی دہائی پڑی ہوئی ہے۔ ان کی متعلقہ تعلیم پاکستان اور نہ اپنے کام آئی کہ ریاستی سطح کی فنانشل مینجمنٹ پر عمل کے اطلاق کا موقع ملا بھی تو تب جب ڈار صاحب کی گیمیکس اکانومی کے دور رس نتائج نکل کر ملک آئی ایم ایف کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ تباہ کن ریکارڈ تو اپنی جگہ اسحاق ڈار تو وزیر خزانہ کے مطلوب ٹی او آرز کی بنیادی شرط اسٹیٹ فنانشل مینجمنٹ کی متعلقہ تعلیم کے لازمے سے بھی محروم بنیادی طور پر وہ اکائونٹینٹ ہیں اور وہ بھی صنعت کاری کے شعبے کے تجربے سے وہ سیدھے وزیر خزانہ بنا دیئے گئے تھے۔ ایک فیملی جج کے بعد یہ ریاست پاکستان کے پہلے ’’فیملی منسٹر‘‘ تھے جو خزانے کی رکھوالی پر بٹھائے گئے ۔ ان کی قومی معیشت چلانے کی فن کاریاں شہرہ آفاق ہیں، آ کر وزیر خزانہ پھر بن جائیں تو کچھ اور تو نہ ہوسکے گا۔ سارا زور پاکستانیوں کے منی لانڈرنگ کے ذریعے سوئس بینکوں میں ٹھکانے لگائے گئے 200 بلین ڈالر کی واپسی کے لئے کوئی کوشش کرسکتے ہیں تو کریں، جس کی تصدیق انہوں نے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی موجود صدر مملکت عارف علوی کے سوال پر کی تھی اور ہائوس کو یقین دلایا تھا کہ یہ رقم ہم واپس پاکستان لائیں گے، تصدیق تو خود سوئس حکام نے بھی کی تھی۔ نہیں معلوم کہ علوی صاحب نے عمران حکومت کو بھی اس طرف متوجہ کیا تھا یا نہیں۔ پاکستان اس طرف کیوں نہیں آتا۔ جیسا پیچھا سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی سے خط لکھوانےکا کیاتھا، ڈار صاحب کے بیان کی روشنی میں شہباز اسپیڈ اس کارخیر میں دکھائی جا سکتی ہے؟