گفتار کا سلیقہ

July 16, 2022

چند دن پہلے اسلام آباد میں ایک تقریب کے حوالے سے بچپن کی کہانیاں یاد آئیں۔ اِن قصوں کا مرکزی کردار عام طور پر ایک بادشاہ ہوتا تھا جس کی لامحدود طاقت ہمیں مسحور کر دیتی۔ اپنے علاقے میں سیاہ و سفید کا مالک، کسی سے ناراض ہوتا تو سزا کا حکم صادر فرماتا۔ چاہے کسی کو حوالۂ زنداں کر دے، دیوار میں زندہ چنوانے کا حکم دے، ہاتھی کے پائوں تلے روندنے کی سزا دے یا گردن زدنی سے قصہ پاک کر دے۔ سب کچھ اُس کے اختیار میں تھا۔

دربار میں رسائی ،بادشاہ کی وفاداری سے مشروط ہوتی۔ مصاحبین سے مشورہ ہوتا ، مگر وہ سچائی بیان کرنے میں کفایت شعاری سے کام لیتے۔ مصلحت کوشی کا چلن عام رہتا۔ صلاح کار مسند اقتدار کا احترام اور مسند نشین کے مزاج کی نزاکت کا احساس، اپنی سوچ پر غالب رکھتے۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ حقیقت بیان کی جائے یا تجویز دینے میں عقل کے تقاضے پورے کئےجائیں بلکہ فہم و فراست کا اصل امتحان دربارِ شاہی کی سوچ کے درست تعین سے منسلک رہتا۔

اسلام آباد کی اِس تقریب کے حوالے سے گفتگو کے سلیقے اور صحافتی قرینے کا تذکرہ ہو رہا تھا کہ ہمارے ایک صحافی دوست نے اچھُوتی بات کہی۔ اُس نے کہا بادشاہت کا دور موجودہ حالات سے بہتر تھا۔ یہ جملہ سُن کر سب کے کان کھڑے ہو گئے۔ وضاحت ہوئی کہ آج کل صحافی کو بات کرنے سے پہلے صرف ایک بادشاہ کی بجائے کئی مقتدر حلقوں کے مزاج کی نزاکتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ پرانے وقتوں کے دربار میں صرف ایک فقرے سے شاہی عتاب اور ممکنہ سزا سے بچائو ممکن تھا۔ اگر گمان ہو کہ بات بادشاہ کو پسند نہیں آئے گی تو سر جھُکا کر درخواست کی جاتی ’’حضور اگر جان کی امان پائوں …تو عرض کروں۔‘‘ بادشاہ بھرے دربار میں جان کی امان عطا کرتا تو زبان کھولنے کی ہمت ہوتی۔ بادشاہ ناراض بھی ہو جائے تو اپنی زبان کا پاس رکھتے ہوئے ، صرف یہ حکم دیتا کہ اِس گستاخ کو نظروں سے دُور کر دیا جائے۔

اِس دلچسپ گفتگو میں ہمارے ایک زمانہ شناس دوست بھی شریک ہوگئے۔ وہ حساس معاملات کو طنزومزاح کے لبادے میں بیان کرنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ اُن کے مطابق آج کل، ’’جان کی امان‘‘ طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ طاقتور لوگوں سے مخاطب ہونے کا قرینہ جنگل کی ایک کہانی سے سیکھا جا سکتا ہے۔ دوستوں نے کہانی سُننے کی فرمائش کی تو اُنہوں نے فرمایا کہ ایک جنگل میں عقلمند لومڑ خوراک کی کمی سے پریشان تھا۔ وہ بھیڑیے کے پاس پہنچا اور مشکل بیان کی۔ بھیڑیے نے لومڑ سے اتفاق کیا اور دونوں مشورہ کر کے شیر کے پاس پہنچے۔ لومڑ نے نہایت ادب سے شیر کی خدمت میں تجویز پیش کی۔ اُس نے کہا ، حضور، ہم دونوں شکار کی کمی سے پریشان ہیں۔ میں شکار تلاش کر سکتا ہوں، مگر میرے جسم میں کسی جانور کو ہلاک کرنے کی طاقت نہیں۔ بھیڑیا بھی اتنا طاقتور اور پھرتیلا نہیں کہ جانور سے رفتار میں مقابلہ کرے۔ حضور اجازت دیں تو ایک تجویز پیش کرنے کی جسارت کروں۔ اجازت ملنے پر لومڑ نے کہا کہ میں نشاندہی کروں گا اور بھیڑیا شکار کو ڈرا کر آپ کی طرف لے آئے گا۔ آپ چونکہ سب سے زیادہ طاقتور ہیں، جانور کوئی بھی ہو، اُسے چند لمحوں میں شکار کر لیں گے۔ شیر نے تجویز مان لی۔ دُوسرے دن صبح کے وقت، تھوڑی دیر میں اِس ٹیم نے ایک خرگوش ، ایک ہرن اور ایک نیل گائے کا شکار کیا۔ لومڑ سر جھکائے چُپ چاپ شیر کے سامنے بیٹھا رہا مگر بھیڑیے سے صبر نہ ہوا۔ اُس نے شیر سے کہا ، وقت آ چکا ہے کہ اب شکار کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ شیر نے پوچھا، ’’تم کیا تجویز کرتے ہو؟‘‘ بھیڑیے نے جواب دیا ’’میرے خیال میں لومڑ کو خوراک کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی، اِس کےلئے خرگوش کافی ہو گا۔ ہرن میں لے لیتاہوں اور آپ چونکہ بڑے ہیں، آپ کو زیادہ خوراک کی ضرورت ہے، اس لئےنیل گائے آپ رکھ لیں۔‘‘ شیر نے جواب میں اپنے نوکیلے پنجے سے بھیڑیے کو ایک زبردست تھپڑ مارا۔ بھیڑیا خون سے لت پت ہو کربے ہوش ہو گیا۔ اب شیر نے لومڑ کی طرف دیکھا اور حقارت سے کہا، ’’ابے لومڑ! تیری بھی کوئی رائے ہے؟‘‘ لومڑ نے جواب میں اپنے جھکے سر کو اُوپر اُٹھائے بغیر کہا،’’حضور، میرا یہ مقام نہیں کہ آپ کی خدمت میں رائے دینے کی ہمت کروں۔ مگر چونکہ آپ نے پوچھا ہے تو خاموش رہنا بے ادبی تصور ہو گی۔ اِس لیے زبان کھولنے کی جسارت پر مجبور ہوں۔‘‘ شیر نے لومڑ کے اندازِ گفتگو سے خوش ہو کر رضامندی سے سر ہلایا اور مزید بولنے کی ترغیب دی۔ لومڑ نے بات جاری رکھی، ’’اے جنگل کے بادشاہ ! حکیموں سے سُنا ہے کہ ناشتے میں اچھی غذا استعمال کرنی چاہئے۔ہرن کا گوشت لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے۔ آپ دن بھر چست رہنے کے لئے ہرن کا ناشتہ کریں۔ اگر دوپہر کے کھانے میں ہلکی غذا مطلوب ہو تو خرگوش تناول فرمائیں اور رات چونکہ لمبی ہوتی ہے تو نیل گائے اُس وقت کے لئے رکھ چھوڑیں۔‘‘ لومڑ کی بات سُن کر شیر کا طرزِ تخاطب بدلا۔ اُس نے کہا ، ’’میاں لومڑ! یہ حکمت اور دانائی تم نے کہاں سے سیکھی؟‘‘ لومڑ نے ایک نظر بے ہوش بھیڑیے پر ڈالی اور کہا ، ’’یہ آپ کی صحبت اور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔‘‘

کہانی سُنانے کے بعد ہمارے صحافی دوست نے خود ہی ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا، ’’اگر مجھے طاقتور لوگوں سے بات کرنا ہو، کوئی میری رائے طلب کرے یا تجزیہ سُننے کا طالب ہو، تو میں اس سے ’’جان کی امان‘‘ طلب نہیں کرتا۔ اپنا انجام سوچ کرمیری گفتار میں از خود سلیقہ آ جاتا ہے۔‘‘

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)