کیا عقل و شعور کے لئے بڑھاپا ضروری ہے؟

July 17, 2022

درویش پر ربع صدی قبل اپنی پہلی ہی ملاقات میں ایک شخص کی رعونت پوری طرح واضح ہوگئی تھی آخر ان لوگوں کو کیوں دکھائی نہیں دیتی جو اس کے آس پاس رہتے ہیں یا ہمہ وقت اس کے بھاشن سنتے ہیں۔

اے میری پیاری قوم کے نوجوانو! آپ بھی کچھ سمجھ جائو، عقل وشعور کیلئے لازم تو نہیں ہے کہ سن رسیدہ ہونے کا انتظار کیا جائے، جینئس ہونے کیلئےبڑھاپا لازم تو نہیں ، سچ اور جھوٹ کی پرکھ کیلئے لچھے دار تقاریر کو معیار کیوں بناتے ہو؟ بندے کی اصلیت کیوں نہیں پرکھتے ہو؟ آج یہ شخص شہربہ شہر اپنی پارسائی یوں بیان کرتا پھررہا ہے جیسے یہ کوئی اوتار ہے، ایمانداری اور قابلیت اس پر ختم ہے، میں حق کا علم لے کر باطل کے خلاف جہاد پر نکلا ہوں لہٰذا اے طاقتورونیوٹرل مت بنو ورنہ تمہاری دنیا اور عاقبت دونوں برباد ہو جائیں گے۔

جناب عالی ، جانے بھی دیں ذرا اپنی ادائوں پر بھی غور فرما لیں ، ساڑھے تین سال میں ملک کی چولیں ہلا ڈالیں اور قوم کو معاشی بدحالی و مہنگائی کے سونامی میں ڈبو دیا ،آج کہہ رہےہیں کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ سن کر بڑی تکلیف پہنچی ہے، ان کو نام نہاد مراسلے کی انکوائری کرنی چاہیے تھی، ذرا مزید پڑھ یا سن لیں، یہی تو وہ کہہ رہے ہیں کہ جب آپکی حکومت تھی تمامتر اختیارات آپکے پاس تھے پورا وقت بھی ملا تو اس مراسلے کی تحقیقات خود کیوں نہ کروائیں؟ کیوں کھیسے میں دبائے رکھا؟ فاضل جج نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ’’اگر مراسلے میں ایسا کوئی مواد بھی ہوتا تو بھی اس کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ ایک آئینی تقاضا تھا، مراسلے کی بنیاد پر آئینی تقاضا پورا نہ کرنے کا یہ عمل ڈپٹی سپیکر کی جانب سے بدنیتی ، تعصب اور دائرہ اختیار سے باہر تھا، پوری قوم گواہ ہے کہ آئینی تقاضے اور عدالتی حکم کے باوجودسپیکر نے جان بوجھ کر جمہوری عمل کو لٹکایا...‘‘

سپریم کورٹ کے متفقہ تفصیلی فیصلے میں اس قدر واضح آئین شکنی گردانے جانے کے بعد بھی سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ سائنس اور قانون کا سابق وزیر اپنے آقا کی خوشنودی میں سپریم کورٹ کو دھمکانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سپریم جوڈیشری نے اپنا یہ تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے قوم یا جمہوریت پر کوئی احسان نہیں کیا ۔ یہ آئین کا صریح تقاضا تھا جسے پورا کرنا آئینی عدالت کی ذمہ داری تھی، سچائی کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کے علاوہ دوسرا کوئی فیصلہ بنتا ہی نہیں تھا جس کی نظریۂ ضرورت کے تحت بھی گنجائش نکالی جاسکتی لیکن یہاں چونکہ آئین، پارلیمان اور بنیادی انسانی حقو ق تک سے کھلواڑ کیا جاتارہا ہے، اس لئے آئین اور جمہوریت پر ایمان رکھنے والے ہوا کا ایک بہتر جھونکا آنے پر جوڈیشری کو تحسین و تشکر بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔اس کے برعکس جن لوگوں کی سرشت میں نظریۂ ضرورت اوراسٹیبلشمنٹ گھسی ہوئی ہے وہ آج لاکھ نعرے بازی کریں اصلیت تو نہیں بدل پا رہی۔آج کے الفاظ کا چنائو ذرا ملاحظہ ہو:’’ جرنیل اور ججز نوکری کر لیں یا سیاست‘‘ ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ جرنلز اور ججز بند کمروں میں فیصلے کرلیں‘‘ ’’آرٹیکل 6 کے کیسز بننا شروع ہوئے تو گردنیں زیادہ اور رسے کم پڑ جائیں گے، وہ کام کریں جو کر سکیں‘‘

’’مقتدر حلقوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہاں انقلاب ووٹ کے ذریعے آئے گا یا سری لنکا جیسی صورت حال سے‘‘۔مقتدروں سے پہلے کیا یہاں میڈیا میں اس امر پر مباحثہ نہیں ہونا چاہیےکہ پاکستان کو سری لنکا والی پوزیشن میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟؟ اے ہینڈسم کے عاشو!تمہاری پنشنوں کے پیسے بھی نہیں بچنے تھے اسی بربادی کو دیکھ کر تو وہ توبہ تائب ہوئے ہیں اور آپ لوگ انہیں نیوٹرل کے طعنے دیتے ہوئے اس لئے کوس رہے ہیں کہ ملک ڈبتا ہے تو ڈوب جائے، تم نیوٹرل مت بنو ، مزید بربادی کے لئے ہمیں دوبارہ اقتدار میں لے آئو۔

نئے انتخابات کا شوق بھی بالآخر پورا ہو جائے گا فی الحال پنجاب کی یہ جو بیس سیٹیں ہیں ،جو تمہارے مطابق تمہاری پارٹی کی ہیں ذرا انہیں جیتنے کا چیلنج تو قبول کرو کہ ن لیگ والوں نےآپ کے لوٹوں کوہی ٹکٹ دیئے ہیں۔ اگر یہ بیس سیٹیںجیت گئے تو شایدآپ کی سیاست بھی بچ جائے ورنہ وہ کچھ بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے جو وہم و گمان میں بھی نہ ہو ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)