اپنی اپنی قبر

August 03, 2022

چند ماہ قبل، میرے والد کے ایک دوست ان سے ملے تو سخت غصے میں تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ موجودہ ملکی حالات کا سب سے بڑا ذمہ دار ہارون الرشید ہے ، جس نے عمران خان نامی ایک ’’ہیرو‘‘ تراش کے اس قوم پہ مسلط کر ڈالا۔ والدصاحب خاموشی سے سنتے رہے ۔ 2018ء سے 2022ء کے درمیان شاید سینکڑوں بارعمران خان کی مذمت میں لپٹی اپنی مذمت وہ سنتے آ ر ہے تھے۔ صفائی دینے کی تمنا تھی اور نہ توانائی ۔

والد صاحب کے ساتھ بچپن سے میں خان صاحب سے ملتا آرہا ہوں۔میرے چھوٹے بھائی اویس رشید کو انہوں نے بائولنگ ٹپس دی تھیں ۔مجھے بھی ایک بار وزن کم کرنے کا طریقہ بتایا ۔ کئی بار خان صاحب خود ڈرائیو کر کے والد صاحب کو کہوٹہ روڈ والے گھر چھوڑنے آتے رہے۔ میں پانچویں جماعت میں زیرِتعلیم تھا ، جب خان صاحب ہمارے سکول رحمٰن پبلک تشریف لائے ۔ ایک استانی کہنے لگی : نواز شریف اور بے نظیر کے مقابلے میں خان صاحب کے جلسوں میں لوگ تو ہوتے نہیں ۔ان کا حال اس وقت جماعتِ اسلامی کا سا تھا، جس سے محبت بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔

خان صاحب 2013ء کا الیکشن ہارے تو دوستوں سے کہنے لگے : ہم ہارون الرشید کی وجہ سے ہارے ہیں ۔فون پر بہت تلخی سے بات کی اور تعلقات منقطع کر لیے۔ناراض اس لیے تھے کہ الیکشن سے دو ہفتے قبل والد صاحب نے کالم لکھا ’’حادثہ ہو چکا، ‘‘ انہوں نے پیش گوئی کی کہ تحریک انصاف نے جس طرح ٹکٹ جاری کیے ، وہ ہار جائے گی ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی سبکدوش ہو چکے تو ایک دن کہنے لگے :’’ ہارون صاحب میں نے کیا کہا تھا؟ آپ کو مایوسی ہوگی۔‘‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی ان ہیروز میں سے ایک تھے ، جو والد صاحب نے تراشے۔والد صاحب نے ان حالات میں ایک جنرل کو ہیرو بنا ڈالا جب کے ادارے کے خلاف سب و شتم ایک فیشن تھا۔ سپہ سالاری کے اعتبار سے واقعتاًجنرل کیانی ایک تاریخ ساز اور فاتح جنرل تھے ۔ سپہ سالاری میں کوئی کمی نہ تھی ۔نامقبول وہ اور وجوہات سے ہوئے ۔ میرے والد کے تراشے ہوئے تیسرے ہیرو پروفیسر احمد رفیق اختر ہیں ۔

والد صاحب کے وہ دوست جو 2018ء سے 2022ء تک ان پہ طعنہ زنی کرتے رہے ، ان سے میرا سوال یہ ہے کہ خان صاحب کو مائنس کر کے کیا ملک کے مسائل کچھ حل ہوئے ؟ تیل سستا ہوا ، معیشت ٹھیک ہو گئی ؟ خا ن صاحب اگر نہ آتے تو نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی دادا گیری کون ختم کر تا؟ زرداری صاحب توآج بھی چوہدری شجاعت کو اس عمر میں ورغلا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ قرآن ِ کریم کہتاہے : اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے دفع (تباہ ) نہ کر دیتا تو دنیا فساد سے بھر جاتی ۔

والد صاحب کے دوستوں بلکہ پوری پاکستانی قوم سے یہ گزارش ہے کہ تین سال آپ نے خا ن صاحب کی حکومت دیکھ لی ۔انہیں ہٹا کر بھی دیکھ لیا۔ پہلے تو چلیے میرے والد نے بہلا پھسلا کر آپ سے خان صاحب کو ووٹ ڈلوا دیے تھے ۔اب کی بار دوبارہ انہیں ووٹ دینا ہو تو سوچ سمجھ کر اور اپنے بل پر دیجیے گا ۔ ہارون الرشید کا ذمہ اوش پوش۔

برسبیلِ تذکرہ خان صاحب نے ڈاکٹر شعیب سڈل سمیت ایسے کسی ایک بھی ماہر سے کام نہیں لیا، جنہیں میرے والد نے ان سے متعارف کرایا تھا۔2013ء میں کوشش کی کہ ڈاکٹر شعیب سڈل کو محتسب لگایا جائے تو جہانگیر ترین اینڈ کمپنی نے یہ کوشش ناکام بنا دی ۔ خان صاحب نے دوسری جماعتوں کے بدترین سیاستدانوں کو پارٹی میں شامل کیا اور ٹکٹ دیے ۔

ہمارا مسئلہ ہی اندھی پیروی ہے ۔ ہمارے اسلاف ایسے نہیں تھے ۔ امیر المومنین عمر بن خطاب ؓ سے ایک بدو یہ پوچھ سکتا تھا کہ ایک چادر میں ان کا لباس کیسے سلا ؟ انہوں نے یہ نہ کہا کہ میں رسول اللہ ﷺکا چنا ہواشخص ہوں ۔ مجھ سے سوال نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی موقع پر موجود کسی صحابی ؓ نے اس شخص سے بازپرس کی ،برصغیر کے لوگ اگر وہاں بیٹھے ہوتے تو وہ اس شخص کی بوٹیاں نوچ لیتے ۔

منہ بولے بیٹے زید ؓ کے فرزند اسامہ ؓ رسالت مآبﷺ کو کیوں عزیز نہ ہوتے ۔ انہوں نے مگر جنگ کے دوران موت سر پہ دیکھ کر کلمہ پڑھ لینے والے شخص کو قتل کر دیا ۔ رسالت مآب ﷺکو علم ہوا توآپ نے خدا کے سامنے اپنے آپ کو اسامہ بن زید ؓ کے اس فعل سے بری قرار دے دیا ۔ یہ تو پیغمبرﷺ کا طرزِ عمل ہے کہ عمل اپنا اپنا ۔ ادھر مگر میرے والدہارون الرشید، عمران خان، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پروفیسر احمد رفیق اختر کے ہر عمل کے ذمے دار ہیں ۔ دین اگرچہ یہ بتاتا ہے کہ انسان یکسر بدل بھی سکتا ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاضؒتو پہلے ڈاکو ہوا کرتے تھے ۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو جب معلوم ہو گیا کہ خنجر گھونپنے والا کون ہے تو دنیا سے رخصت ہوتے دم اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔موت سے پہلے آدمی مطمئن نہیں ہو سکتا ۔ اصول ہی یہ ہے۔

میری دادی کہا کرتی تھیں ’’اپنی اپنی قبرے‘‘ اپنی اپنی قبر میں۔ میرے والد، کپتان، جنرل اور صوفی، سب کو اپنی اپنی قبر میں جانا اور اپنا اپنا حساب دینا ہے۔ کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں، نہ کسی کی سفارش دوسرے کے کام آئے گی ۔ کوئی شخص اپنی اولاد کا بھی ذمہ دار نہیں تو لیڈروں کا کیونکر ہو سکتا ہے۔

کیا پی ٹی آئی اور نون لیگ کا کوئی حامی کبھی یہ کہتا ہے کہ میں اپنے لیڈر کے اس فعل سے بری ہوں۔ بالکل برعکس ہر شخص اپنے اپنے لیڈر کے دفاع میں ہر ممکن دلیل تراشتا ہے۔ یہ ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل نہیں۔