رینٹل ڈرگ لائسنس (Rental Drug Licence)

August 12, 2022

تفہیم المسائل

سوال: فارماسسٹ حضرات اپنی کیٹگری(لائسنس)رینٹ پہ دیتے ہیں، قانون کے مطابق جہاں لائسنس دیا ہو، وہاں اس فارماسسٹ کا موجود ہونا ضروری ہے، اس طرح سے حاصل ہونے والی کمائی کے بارے میں شریعت کیا رہنمائی فرماتی ہے؟ (رائو محمد ایوب اعظم)

جواب: میڈیکل لائسنس ایک ایسا جازت نامہ ہے ، جس کی بنیاد پر آپ میڈیسن کی فروخت کا کاروبار کرسکتے ہیں ، یہ فارمیسی یعنی دواؤں اور طبّی نسخوں (Medical Prescription)کی بابت مہارت کا ایک پیشہ ورانہ لائسنس ہے، جو مُجوّزہ کورس کی کامیابی کے ساتھ تکمیل کے بعد جاری کیا جاتا ہے، ایسا لائسنس یافتہ شخص ادویات کے بارے میں علم رکھتاہے اور ڈاکٹری نسخے کے مطابق مریض کو صحیح دوا دیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی ڈگری ہولڈر کو اُس کی صلاحیت کے مطابق کسی پیشہ ورانہ منصب پر ملازمت دی جاتی ہے، جس سے وہ ماہانہ تنخواہ کا اہل قرار پاتا ہے، یہ تنخواہ اُسے اپنے کام کے عوض ملتی ہے اور کام ڈگری کی بنیاد پر ملتا ہے۔

میڈیکل لائسنس اہل شخص کے سواکسی دوسرے کو استعمال کرنے کی قانوناً بھی اجازت نہیں ہوتی اور حکومت کی ایسی جائز پابندیاں جو مفادِ عامہ کی مصلحت میں ہوں، ان کی پاس داری شرعاً بھی لازم ہوتی ہے۔ لہٰذا فارمیسی کی ڈگری یا لائسنس جس شخص کے نام متعلقہ ادارے نے جاری کیا ہے، صرف اسی کواس کے استعمال کی اجازت ہوگی، نہ کہ کسی اور کو، نیز یہ اجازت نامہ کوئی ایسا مال نہیں ہے جس کو کرایہ پر دیا جاسکے یا فروخت کیا جاسکے، اس لیے اسے کرایہ پر دینا اور لینا اور اس کی آمدنی دونوں ناجائز ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے۔ حدیث پاک میں ہے : ترجمہ: ’’حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک، اللہ تعالیٰ نے جس شے کو حرام فرمایا ، اُس کی قیمت کو بھی حرام فرمایا ، (سنن الدارقطنی :2815)‘‘۔

البتہ جوازکی ایک صورت یہ ہے کہ میڈیکل لائسنس ہولڈر شراکت کی بنیاد پر کسی شخص کو اپنے ساتھ فارمیسی کے کاروبار میں شامل کرلے ،وہ خود بھی باقاعدہ میڈیکل اسٹور پر بیٹھے اور باہم نفع کا تناسب طے کرلیں، لائسنس کا کرایہ وصول کرنے کی بجائے اپنا وقت دینے کی اجرت متعین کریں، لائسنس کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن احمد الشلبی لکھتے ہیں:’’ اور اس شرط پر کہ عقد میں دو تبادلہ کرنے والے ہوں ،بیع کی تکمیل کے لیے ہر ایک کے پاس مال ہو جوکہ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے ،(حاشیۃ الشلبی ، جلد 4، ص:3)‘‘ ۔ سو فارماسسٹ لائسنس مال نہیں کہ اُس کی بیع کی جائے یا کرائے پر دیا جائے ،یہ ڈاکٹر کی پیشہ ورانہ مہارت کا لائسنس ہے ،جو لائسنس یافتہ ہی استعمال کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر بعض مریضوں کو پیٹینٹ دوائیں تجویز کرتے ہیں یا کمپنیوں کے برانڈڈ نام سے فروخت ہوتی ہیں ، جیسے پیناڈول/ پیراسیٹا مول /ڈسپرین وغیرہ ،جو رجسٹرڈ ٹریڈ مارک کے ساتھ ہوتی ہیں،انہیں عام پڑھا لکھا آدمی بھی پڑھ سمجھ لیتا ہے، لیکن بعض مریضوں کو ڈاکٹر فارمولا نسخہ تجویز کرتے ہیں، انہیں سمجھنے کے لیے پروفیشنل آدمی درکار ہوتا ہے، اس لیے فارمیسی (ادویہ) کی دکان کھولنے کے لیے لائسنس یافتہ شخص کی پابندی لگائی جاتی ہے، کیونکہ اگر نادانی میں مریض کو غلط دواتھمادی گئی ،تو اُسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ پس اگر فارمیسی یا میڈیکل اسٹور پر لائسنس یافتہ فارماسسٹ خود موجود ہے اور وہ پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہاہے ، تو اس کی طے شدہ اجرت درست ہے، لیکن محض لائسنس فارمیسی کو دے کر اس کا معاوضہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔