شریعت کا نفاذ اور قرآن و سنت کی بالادستی

August 12, 2022

مولانا نعمان نعیم

یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان برسہا برس کی جدوجہد ،ہزاروں مسلمانوں کی شہادت، لاکھوں فرزندان اسلام کی ہجرت، بے شمار ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں اور بچوں کی دعاؤں کی برکت سے آزاد ہوا۔ پاک دھرتی کی بدولت ہم مذہبی طور پر آزاد اور اپنے دین پر عمل پیرا ہیں۔ وطن کی برکت سے معیشت روزگار ،عزت، اطمینان، اولاد اور بے شمار نعمتیں میسر ہیں۔ وطن ہی کی بدولت یہاں کی مساجد، مدارس۔ خانقاہیں اور روحانی مراکز آباد ہیں۔

ریاست پاکستان ہی یہاں کے مردوزن پیروجوان کی پہچان اور سب کی مان ہے، اس کی تعمیرو ترقی، استحکام و بقاء سب ہی کی آرزو اور تمنا ہے، وطن کے بیٹے وطن کے وفادار اور حب دار ہیں، ریاست ماں کی حیثیت رکھتی ہے، ماں کی خدمت ، راحت، اکرام، احترام ماں کا حق ہوتا ہے۔ پاکستان ہمیں دل و جان سے عزیز ہے اور ہونا بھی چاہئے، کیونکہ وطن کے ہم پر شرعی، اخلاقی اور آئینی حقوق ہیں، شرعاً اخلاقاً وطن سے محبت، وطن کے باسیوں کا فریضہ ہے۔

قرآنِ کریم میں پوری صراحت اور وضاحت سے اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اہل ِ ایمان کو اللہ تعالیٰ اگر کسی مملکت یا سرزمین پر اقتدار اور حکمرانی کا اختیار عطا کریں گے تو وہ وہاں نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ کا نظام قائم کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ ان تعلیمات کی روشنی میں مملکت ِخداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور نظام مصطفیٰﷺ کا نفاذ اربابِ اقتدار اور حکمرانوں کا دینی و اجتماعی فریضہ ہے۔ قیام پاکستان کے بنیادی محرکات میں سب سے پہلا اور بنیادی محرک اسلامی نظام اور نظریے کا احیا ءتھا۔ قیام پاکستان تک یہی جذبہ آزادی اور تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ نظریۂ پاکستان کی بنیاد کلمۂ طیبہ اور دین کی بالادستی پر قائم ہے۔ اسی مقصد اور جذبے کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

اسلامی ریاست کی بنیاد خالصتاً قرآن وسنّت پر قائم ہے، جہاں حکومت وعوام کے مابین ایسا عمرانی میثاق قائم ہو کہ جس کے نتیجے میں نہ تو عوام اپنے حکمرانوں سے ادائے حقوق کا مطالبہ کریں اور نہ ہی حکمراں رعایا کے حقوق میں کسی کوتاہی کا ارتکاب کریں۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ تم میں سے ہر شخص راعی یعنی صاحب ِ فرض وادا اور ذمے دار ہے اور ہرشخص سے اس کی رعیّت یعنی صاحبانِ حقوق کی بابت پوچھاجائے گا۔

پس امام یعنی حکمراں لوگوں کا ذمے دار ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ باپ اپنے گھروالوں کا ذمے دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ماں اپنے خاوند کے گھر اور بچّوں کی ذمے دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں بازپُرس ہوگی اور غلام اپنے آقا (یاماتحت اپنے بڑوں) کے مال ومنال میں ذمے دار ہیں اور اُن سے اس کی ذمے داریوں کی بابت سوال ہوگا۔

تم میں سے ہر شخص ذمے دار اور صاحبِ فرض وادا ہے اور ہرشخص سے اس کی ذمے داریوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی‘‘۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں جملہ حقوق وفرائض کا ایک جامع، دل نشین اور خوب صورت بیان ہے۔ جو ایک پہلو سے مساواتِ انسانی کے مطلوب کرداروں کو محسوس اور نمایاں کرتا ہے اور اُنہیں مضبوط بنیادوں پر ایک دوسرے سے منسلک بھی کردیتا ہے۔

اسلامی ریاست کے آٹھ بنیادی واساسی عناصر اور خدوخال ہیں جن کے بغیر اسلامی ریاست کا تصور ناممکن ہے، جس معاشرے میں یہ عناصر قائم ہوں گے وہی اسلامی ریاست کہلانے کی مستحق ہوگی۔٭ حقوق وفرائض کا تعین٭ شورائیت٭بنیادی سہولیات کی فراہمی٭ تحفظ جان ومال وعزت نفس اور قیام امن٭ فواحش سے پاک انفرادی واجتماعی زندگی٭معاشرتی طبقات میں مساوات کی تنفیذ٭ عدل وانصاف کا نفاذ ٭ بے لاگ احتساب۔

اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی صفات اور ذمے داریوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی کیا ہے کہ وہ اقامت ِصلوۃ، نماز کا نظام قائم کرتے ہیں۔نظامِ زکوۃ قائم کرتے ہیں۔ امربالمعر وف، یعنی نیکیوں کا حکم دیتے ہیں۔نہی عن المنکر، یعنی برائیوں سے روکتے ہیں۔ حکمرانوں کی ذمے داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رعایا کے ساتھ نرمی کا بر تا ؤ کریں۔ اچھائیوں کی تاکید اور برائیوں کی روک تھام کریں۔ عہدے کی حرص نہ کریں۔

حکمرانوں کے لیے یہ بھی لا زم ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کو بنیا د بنا کر اپنے لیے ترجیحی سہولیات حاصل نہ کریں۔ عوام کے لیے حکمرانوں تک پہنچنے میں رکا و ٹیں نہ کھڑی کی جائیں۔حکمرانوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ عوام کی معاشی حالت کا وقتاً فوقتاً جا ئزہ لیتے رہیں، تاکہ وہ پر سکون، مطمئن اور آسودہ حال زند گی بسر کر سکیں۔

تعلیم،بیت المال، امن وامان،خوراک کی فراہمی،صحت کی سہولیات کی فراہمی کی ذمے داری پوری کریں۔رعایا کے جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہر اسلامی حکمراں اور اسلامی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اسلامی ریاست میں جہاں حکمرانوں پر بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہیں رعایا کے ذمے بھی کچھ حقوق وفرائض ہیں، جن کی ادائیگی ان پر لازم ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رعایا ملکی قوانین کا دل سے احترام اور ان پر عمل کرے۔صالح اور دیانت دار حکمرانوں کی اطاعت کی جائے۔ بغاوت اور سر کشی اختیار نہ کی جائے۔وہ ملک کی تعمیر وترقی میں حکمرانوں کا ساتھ دے۔اخوت ومساوات کو ہر صورت میں قائم رکھے۔

رواداری‘ برداشت اور باہمی الفت ومحبت کے رشتے استوار کرکے اپنے ملک کو جنت نظیر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔صلۂ رحمی‘حسن سلوک ، قرابت داروں اور پڑوسیوں کا خیال رکھا جائے۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی بچوں‘غرباء‘مساکین‘معذورین ومحتاج اور خواتین کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ دیگر اقوام ومذاہب یعنی اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔

فحاشی ومنکرات اور تمام ایسے برے کاموں سے خود بھی محفوظ رہا جائے اور معاشرے کے دیگر افراد کو بھی تمام ایسی برائیوں سے دور رکھنے کی ترغیب دی جائے، جس سے معاشرے کا امن وسکون برباد ہونے اور نزاع واختلاف پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔

اسلامی ریاست میں شہریوں پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سرِفہرست یہ ہے کہ ریاست کا ہر شہری مملکت کابہترین اور مفید رکن بن کر رہے۔ دوسرے یہ کہ ریاست کا ہرشہری حدوداللہ کی نگہداشت اور مملکت کی پاسبانی کرے۔ ہر شہری اپنی اور دیگر کی جان، مال اورعزت و آبرو کو ریاست کی مشترکہ ملکیت تصور کرے اور خود کو اس کا امین سمجھے۔

اسلامی معاشرہ خوش گوار اور امن و سکون کا گہوارہ اس وقت بن سکتاہے کہ جب اسے فتنہ اور فساد کے ساتھ کافرانہ سازشوں سے محفوظ رکھا جائے جو اس ریاستِ اسلامیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ ریاست کا اور اس کے والی کا حق ہے کہ وہ اپنی رعایا کو بھرپور اور بنیادی حق دے کر اس پر سکون زمین کو فتنہ و فساد اور تباہی سے محفوظ رکھے۔

حدیث میںہے ’’عادل حاکم زمین پر اللہ کا سایہ ہے ‘‘ حضور ﷺ نے جو فلاحی معاشرہ مدینہ منورہ میں قائم کیا، اس میں انصار، مشرکین، یہودی یہاں تک کہ عام غیر مسلموں کو ہر ایک کو نمائندگی دی گئی۔ اسلامی ریاست میں رعایا کے حقوق کو ادا کرناحکمرانوں کی ذمے داری ہے۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے زندگی کا حق، بنیادی ضروریات کی فراہمی یعنی کھانے، پینے رہائش اور علاج کاحق، حسبِ مقدور تعلیم و تربیت کا حق یہ ماں باپ ہی کا نہیں، بلکہ ریاست کے سربراہ کا بھی فرض ہے کہ وہ ان کا اہتمام کرے۔خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے فرمایا" اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے پورے حجاز سے ظلم مٹادیا" حاکم کے فرائض میں ہے کہ معاشرے سے ظلم کو مٹائے۔

جہاں رعایا کو حقوق نہ ملیں، وہ اسلامی ریاست کہلانے کی حق دار نہیں۔ فتح مکہ کے بعد قیام پاکستان تاریخ اسلام کا سب سے بڑا واقعہ ہے، لفظ مدینہ کا مطلب رہنے کی جگہ ہے اور طیبہ کا مطلب پاکیزہ ہے، جب کہ کم و بیش یہی مطلب لفظ ’’پاکستان‘‘ کا بھی ہے ۔تاریخ نے ثابت کیاکہ جس طرح وقت کے ابوجہل و ابولہب یہود کی دولت وثروت کے ساتھ مل کر بھی ریاست مدینہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔

اسی تاریخ کا پہیہ چلتے ہوئے وقت کو پھر دہرائے گا اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جو دنیا کے نقشے پر ایک مسجد کاسا تقدس رکھتا ہے، اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ہراول دستہ ثابت ہوکرخلافت علیٰ منہاج النبوت کا سامان میسر کرے گا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرارداد پاکستان اور قیامِ پاکستان کا بنیادی محرک ،برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا حصول، قرآن وسنت اور شریعت محمدی کی بنیاد پر اسلامی ریاست کا قیام تھا۔

آپﷺ نے اپنی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ سے مثالی اسلامی فلاحی ریاست کا ایک جامع تصور پیش کیا، جس کی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ آپﷺ کے بعد خلفائے راشدینؓ اور دیگر مسلم حکمرانوں نے اسی نہج پر ریاست کی تشکیل کی جہاں حاکم اور رعایا کا عام فرد معاشرے میں مساوی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے تھے۔

امیرالمومنین اور ایک عام فرد عدالت میں بلاتفریق اور مساوی حیثیت میں پیش ہوتے تھے۔ اسلام کے فلسفہ حکومت کی اساس درحقیقت عدل کی بالادستی اور رعایا کے حقوق کی ادائیگی پر ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریے پر قائم ہوا، وہ اسلامی مملکت کا قیام اور قرآن وسنت کا عملی نفاذ ہے۔ اسلامی نظام ہمارے نظام مملکت کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم فلاح وکامرانی ،امن وسلامتی اور بے لاگ عدل پر مبنی اسلامی معاشرے کا تصور یقینی طور پر قائم کرسکتے ہیں۔