محب وطن کون

September 01, 2022

لفظ کے بطن میں معنی رکھا ہوتا ہے، لفظ پرانا ہوتا ہے تو معنی بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے، اور سامع یا قاری کے لئے کسی حِسی تحرک کا باعث نہیں بن پاتا، ایسے لفظ کو زندہ رکھنے کا فرض شاعر و ادیب کو نبھانا ہوتا ہے، جو بحرِ لفظ میں غواصی کرتا ہے اور تہہ سے معنی کے نئے موتی ڈھونڈ کر لاتا ہے، تازہ معنی لفظ کو حیاتِ نوبخشتے ہیں، یوں لفظ ہرے بھرے رہتے ہیں۔ اس کے بر عکس جن الفاظ میں معنوی امکانات کی پرتیں نہ کھل سکیں انہیں آخرِ کار پھپھوندی لگ جاتی ہے، وہ فقط بازار میں لین دین کے دوران اپنے متعین اور ادنیٰ معنوں میں استعمال ہونے کے قابل رہ جاتے ہیں، موثرترسیلِ خیال و احساس ان رگیدے ہوئے لفظوں کے بس کی بات نہیں رہتی۔

’شرم کرو، بے شرم آدمی، بے حیا شخص، گھٹیا لوگ‘ اور اس طرح کے بہت سے لسّانی شہ پارے ہمارے قومی مکالمہ میں اس فراوانی سے استعمال ہوتے ہیں کہ اب نہ تو یہ کسی کو کھٹکتے ہیں نہ کوئی ان کا برا مناتا ہے، کثرتِ استعمال سے ان کی معنوی شدت بھی ماند پڑ چکی ہے، ٹی وی شوز میں یہی زبان ارزاں ہے اور سیاسی جلسوں میں بھی یہی لال و گہر رولے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک لفظ ہے ’غدار‘ جس کے75 سالہ بے محابہ استعمال نے اسے کُند کر دیا ہے۔’ غداری‘ کو قومی ریاستیں سب سے بڑا جُرم مانتی ہیں، لیکن ہم نے اس لفظ کو صبح شام صابن کی طرح استعمال کیا ہے جس سے اس کے معانی گُھل گئے ہیں۔غداروں کی طویل فہرست کیا مرتب کرنا، آسان زبان میں بس یہ سمجھئے کہ پاکستان کا ہر مقبول سیاسی رہنما ’ریاست‘ کی نظر میں غدار قرار پایا، سب کے سب، مادرِ ملت فاطمہ جناح سے ذوالفقار علی بھٹو تک اور بے نظیر بھٹو سے نواز شریف تک۔ غداری کے یہ تمام الزامات روزِ اول سے مضحکہ خیز سمجھے گئے جس سے لفظ ’غدار‘ اور ’غداری‘ کا مفہوم بھی گہنا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اس الزام کو معاشرے میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا بلکہ ہم جیسے لوگ تو غداری کے تمغے کو سیاست دانوں کے لئے اعزاز مانتے ہیں، خواہ یہ اعزاز ریاست عطا کرے یا بشریٰ بی بی۔

اسی پس منظر کا شاخسانہ ہے کہ ہم شوکت ترین کو ’غدار‘ نہیں کہنا چاہتے اور کہیں گے بھی نہیں، لیکن ہمیں کوئی اور لفظ فی الحال سوجھ بھی نہیں رہا، صاحبانِ بصیرت سے درخواست ہے اس سلسلے میں راہ نمائی فرمائیں، انہیں کیا کہا جائے؟ ترین صاحب کی جو ٹیلیفون کالز لیک ہوئی ہیں وہ آپ نے بھی سنی ہوں گی، ان کا لب لباب یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو ملنے والی امداد رکوانے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں کے وزرائے خزانہ مرکز کو خط لکھیںکہ ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ رہے ہیں، اوریہ خط آئی ایم ایف تک بھی پہنچائے جائیں۔ اس گفتگو میں ترین صاحب بڑی وضاحت سے فرما رہے ہیں کہ اس حرکت سے اگرپاکستان کی امداد رک جائے اور کروڑوں پاکستانی مہنگائی کی دلدل میں مزید دھنس جائیں تو دھنس جائیں، اس حکومت نے عمران خان کے خلاف کیسز بنائے ہیں لہٰذا ہم اس کا بدلہ حکومت سے لیں گے چاہے اس سے کروڑوں پاکستانی تباہ حال ہو جائیں۔ترین صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ان کا اکیلے کا نہیں پارٹی چیئرمین کا فیصلہ ہے۔

اب آپ بتائیے اس رویے کو کیا کہا جائے؟ ایسی سنگ دلی، ایسی عوام دشمنی۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ اگراقتدار میں نہ ہوں تو پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملنی چاہئے، ملک میں افلاس اور بیماری بڑھنی چاہئے، پاکستان خاکم بدہن تباہ ہو جانا چاہئے؟ یہ تو صریحاً شقی القلبی ہے! یہ تو غیر انسانی رویہ ہے! کیا کروڑوں پاکستانی آپ کی نظر میں کیڑے مکوڑے ہیں ؟ اگر کسی شخص میں بنیادی انسانی اوصاف کی رَمق بھی باقی ہو تو وہ اپنے دشمن ملک کے معصوم عوام کے خلاف بھی ایسی سازش کا حصہ نہیں بننا چاہے گا، اور آپ اپنے ہم وطنوں کے خلاف ایسی مکروہ سازش کر رہے ہیں، جن میں آپ کے کروڑوں ووٹر بھی شامل ہیں۔ ملک دشمنی کے تجریدی نوعیت کے الزامات تو بہت سے لوگوں پر لگتے رہے ہیں لیکن عوام دشمنی کی ایسی بیّن مثال کبھی ہمارے سامنے نہیں آئی تھی، اور یاد رہے کہ یہ کوئی خیالی سازش نہیں تھی، اسے منصوبے کے مطابق عملی جامہ بھی پہنایا گیا، کے پی کے وزیرِ خزانہ تیمور جھگڑا صاحب نے وہ خط لکھا بھی اور اسے آئی ایم ایف تک پہنچایا بھی۔یہ سچ ہے کہ اگر کوئی راوی ترین صاحب کے یہ جملے ہم تک پہنچاتا تو ہم کبھی اس پر اعتبار نہ کرتے، اسے مبالغہ خیال کرتے، لیکن اب کیا کیا جائے کہ یہ ان کی اپنی آواز میں ہے اور وہ مان رہے ہیں کہ ہاں یہ میری گفتگو ہے اور اس کا سیاق و سباق بھی درست ہے۔اپنے دفاع میں ترین صاحب فرماتے ہیں کہ’ ٹیلی فون ٹیپ کرنا جرم ہے‘۔ آپ ذرا عذرِ گناہ ملاحظہ فرمائیں، یعنی اگر ٹیلی فون پر قتل کی منصوبہ بندی ہورہی ہو، قاتل کو ہدایات دی جا رہی ہوں، گفتگو ٹیپ ہو جائے، تو کیا عدالت میں منصوبہ ساز اور قاتل اپنے دفاع میں یہ دلیل دیں گے کہ ٹیلی فون ٹیپ کرنا جرم ہے؟ اور کیا عدالت اس دلیل کو مان کر قتل کا جرم معاف کر دے گی؟

الحمدللہ، یہ سفاکانہ سازش ناکام ہو گئی، پاکستان اور آئی ایم ایف کا معاہدہ طے پا گیا، اورملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ شوکت ترین صاحب کوکس نام سے پکارا جائے؟ محبِ وطن؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)