ڈر کا گھنا درخت

September 06, 2022

ڈر کے حوالے سے میں آج آپ کو کام کی بات بتا رہا ہوں ۔فقیر کی بات آپ نوٹ کر لیں، لکھ کر محفوظ کر لیں،مشہور اور عام طور پر مانی جانے والی بات ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم سب خالی ہاتھ اس دنیا میں آتے ہیں ۔اور خالی ہاتھ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، یعنی ہم جس نامعلوم دنیا سے اس دنیا میں آتے ہیں، وہاں سے ہم کوئی چیز اپنے ساتھ لے کر نہیں آتے، عین اسی طرح ہم جب اس دنیا سے واپس چلے جاتے ہیں تب بھی ہم اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں جاتے ۔ اپنی املاک ،جائیداد ،موٹر گاڑیاں، کوٹھیاں سب کچھ یہیں چھوڑ جاتے ہیں ۔اس نکتے پر سیر حاصل علمی بحث ہو سکتی ہے۔یقین کیجئے کہ ہم خالی ہاتھ اس دنیا میں نہیں آتے ،اور نہ خالی ہاتھ اس دنیا سے جاتے ہیں، ہم بہت کچھ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں، اور بہت کچھ اپنے ساتھ لے کرجاتے ہیں، اس موضوع پر پھر کبھی بات ہو گی۔ ہمیں آج بات کرنی ہے ،ڈر کے بارے میں۔ بعید الفہم دنیا سے آتے ہوئے ہم اپنی جبلتوں میں ڈر اپنے ساتھ نہیں لے آتے، ڈر ہمیں ورثے میں نہیں ملتا۔ ڈر یا خوف ہمیں معاشرے سے ملتا ہے۔ ڈر معاشرے کی دین ہے۔ معاشرے پر حاوی بے رحم قوتیں اپنے جابرانہ رویوں سے ہمارے دل میں ڈر بٹھا دیتی ہیں۔پچھلی کتھا میں، میں نے اپنے ہم عصر، ہم پیشہ پڑھنے پڑھانے والے چھ پروفیسروں کی ذہنی اذیت کا ذکر کیا تھا۔ ان میں دو وائس چانسلر تھے۔ نیب کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے ایک وائس چانسلر اللہ کو پیارے ہو گئے ۔معاملہ ایک میڈیکل کالج کے الحاق کا ہے۔ میڈیکل کالج کو کس یونیورسٹی کے انتظام میں ہونا چاہئے ?؟عبدالولی خان یونیورسٹی، ہزارہ یونیورسٹی یا پھر پشاور یونیورسٹی ،اس کے علاوہ بھی اگر کوئی معاملہ ہے، تو اس کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن جس کا نیا نام ہائر ایجوکیشن کمیشن ہے، حل کرنا ہے، پڑھنے پڑھانے والے اداروں کے معاملات صوبائی وزارتِ تعلیم کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ستر اسی برس کے سینئر سٹیزن ،پی ایچ ڈی، سینکڑوں تحقیقی مقالے لکھنے والے چھ پروفیسر پشاور میں چھ سال سے نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے بال بچے، ان کی فیملی چھ برس سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ اس نوعیت کے رویے ہم عام آدمیوں کو وہموں، خوف اور ڈر کی کیفیت میں دھکیل دیتے ہیں۔ میں عمر میں اپنے ہم پیشہ پروفیسروں سے بڑا ہوں۔ ٹھیک سے نہ چل سکتا ہوں نہ پھر سکتا ہوں، طرح طرح کی دوائوں پر گزارا کرتا ہوں، بہت خوف زدہ ہوں، یہ میرے معاشرے کی دین ہے، مجھ سے تیس برس پرانا حساب کتاب تو نہیں مانگیں گے ؟

زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ دو ملزموں کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے دونوں ملزموں کو، جو کہ آپس میں بھائی تھے، باعزت بری کر دیا ، عدالت کے فیصلے کی کاپی جیل حکام کو بھیجی گئی تاکہ وہ دونوں ملزموں کو باعزت رہا کر دیں۔ جیل حکام نے سرکھجا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، چھوٹی عدالت کے فیصلے پر عملدر آمد کرتے ہوئے وہ دونوں ملزموں کو پھانسی پر چڑھا چکے تھے۔ میں نے تب اپنے آپ کو دو کیفیتوں میں سے گزرتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ اچانک میرا معاشرہ مجھے اجنبی محسوس ہونے لگا تھا۔ میں خود اپنے معاشرے کیلئے اجنبی بن گیا تھا۔ میں آج تک ان دو کیفیتوں میں سانس لے رہا ہوں۔ اس نوعیت کے بے شمار واقعات میرے وجود میں منجمد ہو گئے ہیں، نہ جانے کب میرے معاشرے نے خوف کا بیج میرے شعور اور لاشعور کے درمیان سرحد پر بو دیا تھا، اس بیج سے نکلا ہوا پودا اب گھنے درخت میں بدل چکا تھا۔ خوف کا گھنا درخت ،جس کی شاخوں سے اندیشے لٹکتے رہتے ہیں۔

یادیں ،عمر کے آخری پہر میں سراب کی مانند لگتی ہیں، کبھی تو بن بادل آسمان کی طرح دکھائی دیتی ہیں، اور کبھی فریب دے جاتی ہیں۔ ٹٹولنے سے کبھی تو کچھ نہیں ملتا، اور کبھی بہت کچھ ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں تب پاکستان نیا نیا بنا تھا۔ میں کالج میں پڑھتا تھا۔ نت نئے رجحانات ،رویے ، نظریے اور سوچنے سمجھنے کے زاویے پڑھے لکھے طبقہ کے علاوہ تعلیمی اداروں میں سرایت کرگئے تھے، ترقی پسند تحریک نے خاص طور پر نوجوانوں کو گرویدہ بنا لیا تھا، ترقی پسند تحریک کی کشش اور طلبا میں ہر دلعزیزی دیکھ کر سرکار کاماتھا ٹھنکا۔ خاص طور پر نئے ادب میں ترقی پسند تحریک کا عمل دخل دیکھ کر سرکاری کارندے حرکت میں آ گئے۔ترقی پسند تحریک سے متاثر نوجوان، طلبا، ادیب، شاعر، سرکار کے خفیہ اداروں کو کمیونسٹ، ملحد، منکر، غدار اور دین کے دشمن لگنےلگے۔ خفیہ اداروں کے مطابق ترقی پسند تحریک کی وجہ سے اسلام کو خطرہ لاحق تھا اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ ترقی پسند سوچ رکھنے والے صفحۂ ہستی سے غائب ہونے لگے۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر)کے تحت ایسی دہشت بٹھائی گئی کہ لکھنے والے اور نئی سوچ رکھنے والے مفلوج ہو کر رہ گئے۔اس طرح بڑی مہارت سے ڈر کا بیج بو دیا گیا تھا۔ بیج سے پھوٹ کر نکلنے والے پودے کی طرح طرح کی تعزیرات سے آبیاری کی گئی۔ آج ہم ڈر کے گھنے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اور ڈر ڈر کر سانس لے رہے ہیں۔