ملکہ برطانیہ کی وفات کا سوگ؟

September 12, 2022

لیڈی ڈیانا ستمبر 1991ء میں چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں تو عابدہ حسین نے وزیر مہمانداری کی حیثیت سے انہیں خوش آمدید کہا ۔لیڈی ڈیانا کے دورہ پاکستان سے متعلق عابدہ حسین نے اپنی خود نوشت ’’پاور فیلیئر‘‘ کے کئی صفحات مختص کئے ہیں ۔عابدہ حسین نے انکشاف کیا ہے کہ نوازشریف کے دور میں لیڈی ڈیانا کا دورہ دراصل مارکیٹنگ کی حکمت عملی کا شاہکار تھا کیونکہ برطانوی حکومت اس دورے کی آڑ میں پاکستان کو جہاز بیچنا چاہتی تھی۔لیڈی ڈیانا جس ہاکر سڈلی طیارے پر پاکستان پہنچیں ،اسی طیارے کی فروخت سے متعلق ڈیل کرنے کیلئے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی ساتھ آئے۔

عابدہ حسین کی بیٹی ہاورڈ یونیورسٹی میںزیر تعلیم تھیں، انہوں نے ٹیلیفون کرکے پوچھا کہ کیا لیڈی ڈیانا نے بینظیر بھٹو سے ملنے کی خواہش ظاہر کی؟عابدہ حسین نے بتایا کہ لیڈی ڈیانا نے بینظیر سے ملنے کی خواہش تو نہیں کی البتہ انہوں نے ایک ایسے شخص سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جو پوری نہیں کی جا سکی۔ عابدہ حسین وزیر مہمانداری کی حیثیت سے لیڈی ڈیانا کیساتھ گاڑی میں براجمان تھیں تو انہوں نے عمران خان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ عابدہ حسین اپنی خود نوشت’’پاور فیلیئر‘‘ میں لکھتی ہیں کہ میں حیران رہ گئی۔لیڈی ڈیانا نے اپنی پلکوں سے نیچے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا،کیا عمران خان سے ملاقات کاکوئی امکان ہو سکتا ہے؟عابدہ حسین نے کہا ،یوور ہائی نیس!عمران خان آسٹریلیا میں کرکٹ کھیل رہے ہیں،اگر وہ پاکستان میں موجود ہوتے تو انہیں آپ سے ملنے کے لئے ضرور مدعو کیا جاتا۔لیڈی ڈیانا کوبادشاہی مسجد کا دورہ بھی کرنا تھا ۔جب وہ گاڑی میں بیٹھ گئیں تو عابدہ حسین ان کی خوبصورت ٹانگوں کو دیکھ کر پریشان ہوئی جاتی تھیں ۔لیڈی ڈیانا نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہا ،کیا میرا لباس کچھ زیادہ مختصر ہے؟چونکہ واپس جا کر کپڑے تبدیل کرنے کا وقت نہیں تھا اسلئے عابدہ حسین نے کہا ،نہیں ٹھیک ہے بس جب آپ مسجد میں جائیں تو سر پہ دوپٹہ اوڑھ لیجئے گا۔لیڈی ڈیانا نے عابدہ حسین سے ذاتی دکھ بھی بانٹے اور بتایا کہ وہ اپنے سسرال کے ناروا رویے سے بہت پریشان ہیںاور ان کے شوہر بھی ان سے پیار نہیں کرتے۔

لیڈی ڈیانا نے بتایا کہ چاہت کے بغیر ازدواجی زندگی ان کےلئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔لیڈی ڈیانا اپنے دورہ پاکستان کے دوران پشاور اور پھر چترال بھی گئیں ۔پشاور میںخیبر رائفل میس سے باہر نکلیں تو پگڑی پہنے ایک قبائلی مشر نے ان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا تو لیڈی ڈیانا کے حکم پر گاڑی روک کر شیشہ نیچے کیا گیا ۔اس قبائلی سردار نے ایک ایسی شرمناک بات کہی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومیں آزادی حاصل کرلیں تو بھی برسہا برس تک خوئے غلامی نہیں جاتی۔ عابدہ حسین اپنی کتاب ’’پاور فیلیئر‘‘میں لکھتی ہیں کہ اس شخص نے تجویز دی کہ ا خبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اگر واقعی انہیں اپنی ساس سے پریشانی ہے تو وہ اپنے شوہر کو کہیں کہ وہ بادشاہ بن جائے ،آپ ملکہ بن جائیں اور اپنی ساس یعنی ملکہ برطانیہ کو پاکستان اور بھارت بھیج دیں۔یہاں ہم ان کو ملکہ بنا لیں گے کیونکہ انگریز ہم پر ہمارے اپنے حکمرانوں سے بہتر حکومت کر سکتے ہیں۔یوں لیڈی ڈیانا ملکہ بن جائیں گی اور ان کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔میں نے ایمانداری سے اس شخص کی تجویز کا انگریزی میںترجمہ کیا تو لیڈی ڈیانااپنا سر گاڑی کی سیٹ پر رکھ کر ہنستی رہیں جبکہ مجھے اس تجویز پر شرمندگی محسوس ہوئی کہ ہم پھر سے غلامی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

ملکہ الزبتھ کی وفات کے بعد ان کے فرزند اور لیڈی ڈیانا کے شوہر چارلس سوئم بادشاہ بن چکے ہیں مگر ملکہ یعنی Queen consort بننے کا اعزاز ان کی دوسری بیوی Camillaکو حاصل ہوا ہے کیونکہ لیڈی ڈیانا شہزادہ چارلس سے علیحدگی کے بعد کارحادثے میں مرگئی تھیں۔ملکہ الزبتھ کی موت پر دنیا بھر میں بھونچال آگیا ہے ۔ دنیا بھر کا الیکٹرانک،پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیانہایت خشوع و خضوع کے ساتھ آنجہانی ملکہ برطانیہ کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے میں مگن ہے۔یوں لگتا ہے جیسے ملکہ الزبتھ کے سانحہ ارتحال کے ساتھ ہی دیگر تما م خبروں اور موضوعات کی بھی وفات واقع ہوگئی ہے ۔ پاکستان میں بھی تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 12ستمبر کو پیر کے دن سرکاری سطح پر یوم سوگ منایا جائے گا اور اس دن سرکاری پر چم سرنگوں رہے گا۔اس اخلاقی زوال اور فکری افلاس کے پیش نظر دل چاہتا ہے ملکہ کی مرگ ناگہانی کے بجائے اپنے معاشرے میں پائی جارہی سوچ اور ذوق کی پستی پر ماتم کروں ۔کسی بھی انسان کی وفات پر اظہار افسوس سے بھلا کیا اختلاف ہوسکتا ہے مگر پاکی داماں کی حکایت اور پاکیزگی کی روایت مبالغے سے مغالطے کی سطح تک جاپہنچے تو گھن آنے لگتی ہے۔اس طرح کے جذبات و احساسات کا اظہار اسٹیفن ہاکنگ کی وفات پر کیا جاتا ،ایسا خراج تحسین مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی کو پیش کیا جاتا تو قابل فہم تھا مگر ملکہ کی طبعی موت پر اس طرح کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی۔

یوں تو دنیا بھرمیں بیشمار ممالک نے سرکاری سطح پر سوگ منانے اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا ہے مگر میرا خیال تھا کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک جہاں برطانوی استعمار نے غلامی مسلط کی ،کم ازکم یہاں حکومتوں کی طرف سے محض سفارتی سطح پر رسمی اظہار افسوس پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔لیکن سرکاری سطح پر یوم سوگ منانے اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ بظاہر آزادی حاصل کرنے کے باوجود خوئے غلامی نہیں گئی ۔صدیوں پر محیط محکومی اور پھر ذہنی غلامی نے یہ سوچ پختہ کردی ہے کہ ہم آج بھی برطانیہ کے باجگزار ہیں اور ملکہ الزبتھ کی موت کا غم برطانوی شہریوں سے کہیں زیادہ محسوس کرتے ہیں۔