اسٹاک ایکس چینج کیسے کام کرتی ہے؟

September 26, 2022

اسٹاک ایکس چینج کا انڈیکس آیا کسی بھی ملک کی معیشت کا عکاس ہوتا ہے یا نہیں، اس کا دارومدار عموماً اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کس وقت اور کس سے یہ سوال کررہے ہیں۔ اگر اسٹاک مارکیٹ میں تیزی ہو اور یہ سوال آپ کسی حکومتی عہدیدار یا حکومت کے حمایتی ماہرِ معاشیات سے پوچھیں گے تو وہ یقیناً اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کو معیشت اور کامیاب حکومتی پالیسیوں کا عکاس قرار دے گا۔ اسی طرح، اگر اسٹاک مارکیٹ گراوٹ کا شکار ہو تو حکومتی عہدیداران اسے نظرانداز کرنا پسند کرتے ہیں۔

یہ بات تو ہوگئی، اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی اور حکومت کے درمیان تعلق کی۔ اکثر تجارتی خبروں میں ہمیں تقریباً روزانہ ہی اسٹاک مارکیٹ کی خبر سننے کو مل جاتی ہے۔ آپ سنتے ہیں کہ اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ کاروبار ہوا یا مندی رہی یا انڈیکس ایک خاص نفسیاتی حد عبور کرگیا، یہ سب باتیں یا اصطلاحات نا صرف کامرس کے طلبہ کو بلکہ ہر اس انسان کو معلوم ہوتی ہیں، جو حصص کے کاروبار سے ذرا سا بھی شغف رکھتاہے یا اپنے سرمائے میں اضافے کی امید رکھتا ہے۔

اسٹاک ایکس چینجز عموماً شہروں کے حوالے سے مشہور ہوتی ہیں جیسے کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج یا ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج۔ اسی طرح اگر تمام شہروں کی اسٹاک ایکس چینجز کو اکٹھا کردیا جائے تو وہ ملکی اسٹاک ایکسچینج بن جاتی ہے، جیسے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو ملک کی تین اسٹاک ایکس چینجز یعنی لاہور، اسلام آباد اور کراچی اسٹاک ایکس چینج کو ضم کرکے بنایا گیا ہے، جس کا صدر دفتر کراچی میں ہے۔ اس کا افتتاح 11جنوری 2016ء کو کیا گیا، یہ اپنی نوعیت کی اوّلین اسٹاک ایکسچینج ہے، جہاں بیک وقت تینوں مارکیٹوں میں ایک ساتھ ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ آئیں اسٹاک مارکیٹ کی کچھ اصطلاحا ت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسٹاک مارکیٹ

اسٹاک مارکیٹ یا ایکوئٹی مارکیٹ، وہ جگہ ہے جو مختلف کمپنیوں کے اسٹاک یا حصص کے خریداروں اور فروخت کنندگان کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ حصص کا فزیکل باقاعدہ لین دین ہوتا تھا لیکن اب سینٹرل ڈیپاڑٹری کمپنی (سی ڈی سی) کے قیام کے بعد حصص کا لین دین ڈیجیٹل فارم میں ہوتا ہے اور حصص کا فزیکلی منتقل کرنا ضروری نہیں رہا۔ حصص کے لین دین کی ڈیجیٹلائزیشن کے بعد کاروباری رفتار تیز، شفافیت میں اضافہ اور لین دین کی لاگت میں قابلِ ذکر حد تک کمی آگئی ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کا اسٹاک مارکیٹ پر اعتماد بڑھا ہے۔

حصص کا کاروبار

بڑے ادارے بینکوں سے ادھار لینے کی بجائے اپنے حصص کا کچھ حصہ عام سرمایہ کاروں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ حصص یعنی شیئرز خریدنے والوں کو شیئر ہولڈرز کہتے ہیں۔ جب کمپنی کو سالانہ منافع ہوتا ہے تو اس کو شیئر ہولڈرز میں ان کے سرمائے کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ حصص خریدنے کے لئے باقاعدہ طور پر ڈاکیومنٹیشن ہوتی ہے۔

آپ کا نام، پتہ وغیرہ لیا جاتا ہے اور جب منافع کا اعلان ہوتا ہے تو کمپنی لوگوں کو منافع کی رقم منتقل کردیتی ہے۔ ملکی حالات اور کاروباری حالات وغیرہ شیئرز کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے سیمنٹ کے شیئرز کی قیمتیں کسی بڑے تعمیراتی منصوبے کے اعلان کے بعد بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بینک عموماً ترقی کی طرف جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اُتار چڑھائو

جس کمپنی کے شیئرز زیادہ خریدے جائیں تو ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جس کمپنی کے شیئرز زیادہ فروخت کیے جاتے ہیں تو ان کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ اگر زیادہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ جائے تو اس سے انڈیکس میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے اور وہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر خریداری کم ہو اور شیئرز کی فروخت یا کاروبار نہ ہو تو انڈیکس گر جاتا ہے، جسے مندی کہتے ہیں۔ جس قیمت پر سرمایہ دار نے شیئر خریدے ہوتے ہیں وہ ایک جیسی نہیں رہتی کیونکہ شیئرز کی قیمت کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے، اس میں کمپنی کی شہرت، اس کے پھیلاؤ، ترقی اور استحکام اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

منافع منقسمہ(ڈیویڈنڈ)

شیئرز سے دو قسم کا منافع حاصل ہوتا ہے، ایک تو وہ جوا سٹاک ایکسچینج میں خرید و فروخت سے ہوتا ہے، مثلاً ایک شیئر آپ نے سو روپے میں خریدا، کچھ دن بعد اس کی مارکیٹ ویلیو 200روپے ہوگئی اور آپ نے اپنے شیئرز بیچ دیے۔ دوسری طرح کے منافع کو Dividend کہتے ہیں، یہ وہ منافع ہوتا ہے جو کمپنی ہر سال ، ششماہی یا سہ ماہی بنیادوں پر اپنے شیئر ہولڈرز کو فی شیئر کے حساب سے دیتی ہے۔ ڈیویڈنڈ بھی دو قسم کا ہوتا ہے، ایک میں تو کمپنی نقد کی صورت منافع دیتی ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنی نقد کے بجائےاس رقم کے حساب سے مزید شیئرز دے دیتی ہے۔

انڈیکس

انڈیکس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ کتنے شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہوا اور کتنے کی قیمت میں کمی۔ اس کی بنیاد پر کل انڈیکس ظاہر ہوتا ہے کہ آج کتنا انڈیکس بڑھا یا گرا۔ ملکی حالات مستحکم ہوں تو سرمایہ کار یا عوام سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اگر ملکی حالات مستحکم نہ ہوں تو سرمایہ کاروں کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی، پیٹرول کی قیمت میں اضافہ وغیرہ بھی شیئرز کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کے اہم عوامل ہوتے ہیں۔

پاکستان کی اسٹاک ایکس چینجز کی تاریخ

پاکستان کی مختلف اسٹاک ایکس چینجز کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہ کچھ یوں ہے:

کراچی اسٹاک ایکسچینج

کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ تھی۔ اس کا قیام 18 ستمبر 1947ء کو وجود میں آیا۔ اس کا صدر دفتر آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع تھا، جو اب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا صدر دفتر ہے۔ 2009ء میں بلوم برگ نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کو دنیا کی تیسری سب سے بہتر مارکیٹ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج اس وقت بھی دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔

لاہور اسٹاک ایکسچینج

لاہور اسٹاک ایکسچینج پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں واقع تھی۔ یہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ تھی جوکہ اب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا حصہ ہے۔ اس کا قیام 1969ء میں ایک آرڈینینس کے تحت 1970ء میں عمل میں لایا گیا۔

اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج

اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی تیسری بڑی حصص مارکیٹ تھی۔ اس کا قیام 25 اکتوبر 1989ء کو عمل میں لایا گیا۔ اس کی عمارت 22منزلہ آئی ایس ای ٹاور کہلاتی ہے، تاہم اب یہ بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا حصہ ہے۔