صدر مملکت کی تجویز، مقبولیت اور فیصلے

September 27, 2022

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ایک عجیب وغریب تجویزدی ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سب کے مشورے سےکی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ جب اس حوالے سے آئین میں ایک طے شدہ طریقہ کار موجود ہے تو پھر ایسی غیر آئینی تجویز کا نہ تو کوئی جواز ہے نہ ہی یہ قابل عمل ہے۔ اگر ایسا کیا گیا توپھر آئین کا کیا ہوگا اور ویسے بھی ایسا کرنا ضروری ہے نہ ہی ایسی اہم تعیناتی یا معاملے پر غیر آئینی طریقہ اختیار کرنے ضرورت اور جواز ہے۔ اس تجویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شاید کسی کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر خواہش پوری ہوتی ہے نہ ہی قابل عمل ہوتی ہے۔

جیسا کہ میں نے بہت پہلے کئی بار عرض کیا تھا کہ عمران خان اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے تو آخر کار وہی ہوا ۔ انہوں نے ایک طرح سے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے نام نہاد اور خود ساختہ جنگ آزادی کو لپیٹ لیا۔ عوام نے ان کی اس چال کو کھل کر مسترد کردیا اسی طرح عمران خان کے لانگ مارچ، دھرنے اور اسلام آباد پر چڑھائی کے دعوے اور اعلانات بھی ٹھس ہوگئے۔ ان کو بعض لوگوں نے اس خوش فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ وہ بہت مقبول لیڈر ہیں۔ ایسے دوست نما دشمنوں میں ان کے بعض قریبی ساتھی، کچھ بیرونی عناصر اوربعض موقع پرست صحافی ومیڈیا ہائوسز شامل ہیں۔ان سب نے عمران خان کو بانس پر چڑھا دیا۔ بعض میڈیا ہائوسز کیمرہ ٹرک کے ذریعے ان کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد کئی گنا زیادہ بناکر دکھاتے ہیں۔ اسی طرح موقع پرست اور مفاد پرست بعض نام نہاد صحافی عمران خان کی وہ تعریفیں کرتے اور خوبیاں بیان کرتے ہیں جن کو سن کر شاید عمران خان خود بھی حیران ہوتے ہونگے کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ مجھ میں اتنے کمالات ہیں۔ ان کے بعض قریبی لوگ ان کی ہر بات کا دفاع کرنے پر مجبور تو ہیں لیکن بسا اوقات وہ تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک تو ایسے ہیں کہ وہ ہر روز عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

کوئی یہ بتائے کہ عمران خان نے اقتدار میں رہتے ہوئے تو ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ذرہ برابر بھی کچھ نہیں کیا تھا تو اقتدار سے نکلنے کے بعد انہوں نے ایسا کیا چمتکار دکھایا کہ وہ مقبول ترین لیڈر بن گئے۔ یقیناً ایسا کچھ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ عمران خان کو ایک اور خوش فہمی میں مبتلا کرکے نئی سیڑھی یا بانس پر چڑھانے کے مترادف ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف آدھے سے زیادہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ کروڑوں لوگ بے سروسامانی کے عالم میں سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں اور عمران خان ان کی مدد کرنے کے بجائے جلسے کرتے پھرتے ہیں یہ کیسی مقبولیت ہے۔ کرائے کے چند ہزار لوگوں کو ہر جگہ جلسوں میں لانے سے مقبولیت نہ تو بڑھتی ہے نہ ہی ناپی جا سکتی ہے بلکہ اس کو بے حسی ہی کہا جاسکتا ہے۔ ایک غیر ملکی میگزین فارن پالیسی کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے بھی اپنے تجزیہ میں یہ ذکر کیا ہے۔ اس غیر ملکی صحافی نے گزشتہ دنوں پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ مذکورہ صحافی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے اتنا نقصان ہوا ہے جو بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے کہیں زیادہ نقصان پاکستان کو عمران خان کی انتشار پسند سیاست سے پہنچ رہا ہے۔ عمران خان ٹیلی تھون سے سیلاب زدگان کے لئے رقوم اکھٹی کرنےکے دعوے کرتے ہیں جس میں سے ایک روپیہ بھی متاثرین تک نہیں پہنچا۔ مذکورہ صحافی کے تجزیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان پورے ملک میں سیاسی انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ سیاسی ریلیاں اور جلسے کرتے پھر رہے ہیں جبکہ قوم کے خیر خواہ لوگ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔

موجودہ حکومت سے اقوام عالم کو بدظن کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف عمران خان درحقیقت ملک وقوم اور بالخصوص سیلاب زدگان کا نقصان کررہے ہیں۔ جو نہایت قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ یہ کیسے مقبول لیڈر ہیں جو سیلاب سے متاثرہ قوم کی مدد کے بجائے امداد دینے والوں کو بدظن کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی راہ میں اپنے بعض نمک خواروں کے ذریعہ اور خود بھی روڑے اٹکاتے ہیں۔ سوائے ایک دوجگہ ڈرامہ بازی کے وہ حقیقی طور پر کسی سیلاب زدہ علاقے میں نہیں گئے۔ آٹے کا ایک تھیلا تک کسی کو نہیں دیا نہ ہی اس جماعت کا کوئی ’’ رہنما ‘‘ اور کارکن سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پہنچا۔ صحیح معنوں میں اگرکسی نے اپنے ہموطنوں کی مدد کی ہےتوان میں سب سے پہلا نمبر افواج پاکستان کا ہے جو تاحال اس کارخیر میں مصروف ہیں۔ ان کے بعد جے یو آئی کی تنظیم انصار الاسلام اور جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن کا نمبر ہے جنہوں نے حتی المقدور ان بے سروسامان لوگوں کی مدد کی۔ عمران خان اور اس کی جماعت کا اس معاملے میں کہیں نام ونشان بھی نہیں ہے۔ خداجانے وہ کونسی مخلوق اورکونسی جگہ ہے جہاں وہ مقبول ہیں۔ ویسے تو عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات چل رہے ہیں جن میں بعض انتہائی نازک اور خطرناک موڑ کی جانب گامزن ہیں اور بعض زیر سماعت مقدمات میں عدلیہ نے ان کے خلاف بھی فیصلے دئیے ہیں یا ان کے موقف کو مسترد کیا ہے۔ تاہم عوام الناس میں اب بھی یہ تاثر عام ہے کہ توہین عدالت کے بعض سابقہ مقدمات میں عدلیہ نے نہایت سخت فیصلے دئیے اور غیر مشروط معافی مانگنے کے باوجود قبول نہیں کی گئی بلکہ اس کے برعکس سخت سزائیں دی گئیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان کے ساتھ معاملہ مختلف اور نہایت نرمی پر مبنی نظر آتا ہے۔قوم کی نظریں عدلیہ پر ہیں اور وہ پرامید ہےکہ فیصلے قانون کے مطابق اور انصاف پر مبنی آئیں گے۔