نظامِ انصاف کا نوحہ

October 04, 2022

گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی قوم عدلیہ کی کارکردگی سےمطمئن ہے تو انہوں نے یہ سوال سامعین کی طرف اچھال دیا۔اس اجلاس کے سامعین بھی عدلیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے لیکن یہ سوال سننے کے بعد کوئی شخص بھی یہ نہ کہہ سکا کہ پاکستانی عدلیہ عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں۔جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کی سیاہی اس کے دامن پر انڈیل دی۔یحییٰ خان کے مارشل لا کو سند جواز بھی پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے عطا کی اور جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف کو وہ سب کچھ عطا کردیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے چیف جسٹس کی داستانیں آج افسانوی کہانیوں کی طرح معلوم ہوتی ہے۔انہوں نے ریکوڈک سے لے کر افسران کی تقرری تک کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ان کے اس تسلسل کو جسٹس ثاقب نثار نے بھی خوب نبھایا عدالت عظمیٰ سے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہونے لگی۔کبھی اسکولوں کی چیکنگ کے لیے جج صاحبان کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔سابق چیف جسٹس معززین کو بے عزت کرنے کے علاوہ شاید کوئی کام جانتے ہی نہیں تھے۔موصوف نے انصاف فراہم کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔مذکورہ اصحاب نے پاکستانی عدلیہ کو تماشا بنا کے رکھ دیا۔اگر عدالتی تاریخ میں جسٹس کارنیلیس،جسٹس وجیہ الدین احمد،جسٹس شفیع الرحمٰن جیسے جج صاحبان کا نام نہ ہو تویہ تاریخ ناقابلِ بیان دستاویز بن کر رہ جاے؟پھر پاکستان کی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔یوسف رضا گیلانی عدالتی انا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نااہل ہوئے۔میاں نواز شریف نہ صرف نااہل ہوئے بلکہ انہیں بار بار نااہل قرار دیا گیا،مریم نواز اور ان کا خاوند اسی عدالت عظمیٰ سے نہ صرف سزا یافتہ ہوئے بلکہ نااہل بھی ٹھہرے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدالتی پیشیاں کیسے فراموش کی جا سکتی ہیں پاکستان کے ایک اور مقبول ترین لیڈر عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے رات 12بجے یہی عدالتیں کھلیں۔کبھی شاہراہ دستور پر واقع عدالت عظمیٰ نے رات گئے انگڑائی لی تو کبھی اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے رات کو انصاف کا بول بالا کرنے کی کہانی تحریر کی۔وہی عمران خان عدالتی وقار کی خاطر معافی مانگنے جج صاحبہ کی عدالت میں پیش ہوا تو جج صاحبہ نے عدالت میں بیٹھنے کے بجائے رخصت پر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔کیا اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے؟

عدلیہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے تمام کردار غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے ہیں،اس کی دہلیز پر سیاستدانوں کی کردار کشی کے چھینٹے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا خون بھی۔انہیں جس کام کی تنخواہ ملتی ہے اس میں کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر ہے اور ہمارے بعد کمبوڈیا اورافغانستان جیسے ممالک ہیں جہاں پر نظام انصاف سرے سے موجود ہی نہیں۔پاکستان کے عدالتی نظام پر نہ عوام کو اعتماد ہے اور نہ خود عدلیہ کے ارکان کو۔گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے محترمہ مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ کیا جس پر تمام قانون پسند حلقوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔یہ کیسا چمتکار ہو گیا۔اگر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کا فیصلہ درست مان لیا جائے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔اور اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ درست مانا جائے تو کیا سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز کی قیدو بند اور کردار کشی کا حساب دیں گے؟جےآئی ٹی کی تفتیش کے بعد سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کی کیا حیثیت رہ گئی ہے،؟کبھی یہی عدالت عظمی اور عالیہ تھیں جن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اب ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ معزز جج صاحبان یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ملزمان کے خلاف صفحہ مثل پر ایک بھی ثبوت موجود نہیں۔جے آئی ٹی کے دس والیم پر مشتمل ثبوت اگر ناکافی تھے تو سپریم کورٹ نے سزا کس بنیاد پر دی تھی؟اور اگر وہ ثبوت کافی تھے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ناکافی قرار کیوں دیا؟یہ محض ایک مثال ہے ورنہ عدلیہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔اس زوال کی سب سے بڑی وجہ عدالتوں میں احتساب کا فقدان ہے،تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک معزز جج کے اثاثوں کے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تو گویا قیامت سی آ گئی۔حکومت کو وہ ریفرنس واپس لینا پڑا۔قوم سراپا سوال ہے کہ اگر سیاستدان اپنے خاندان کے اثاثوں کا جواب دہ ہے تو عدلیہ کے جج صاحبان کیوں نہیں؟حالیہ برسوں میں ماتحت عدالتوں کے لکھے گئے فیصلوں کے معیار پر سینئر وکلا کی گفتگو سن کر بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔عدلیہ کی حالیہ کارکردگی سے عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں۔لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں،لیکن اشرافیہ کے مقدمے فاسٹ ٹریک پر سنے جا رہے ہیں۔معزز جج صاحبان اور وکلا حضرات کو مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ ''معاشرہ کفر کے ساتھ چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں،‘‘اب عدالتوں کو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مقدمات پر توجہ دیناہوگی ورنہ عوامی عدالت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔