باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

October 07, 2022

مریم نواز کے بری ہونے پر، مجھے وہ سارے مقدمات یاد آئے جن کی کئی برسوں تک پیشیاں ہوئیں۔ فیضؔ کا مشہور زمانہ ’’پنڈی سازش کیس‘‘ ہی لے لیں۔ فیض صاحب سمیت سب فوجی افسروں اور دیگر افراد کو چار سال تک جیل میں رکھا گیا۔ فیضؔ صاحب نے جیل میں رہ کر ایسی شاعری کی جوآج بھی حوالہ دینے کے لئے معتبر ٹھہرتی ہے۔ یہ اہم فریضہ لیاقت علی خان کے زمانے میں ہوا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ یہ لوگ ملک میں اشتراکی نظام لانا چاہتے تھے۔ چار سال بعد، یہ مقدمہ اچانک ختم ہوگیا اس مقدمے کی تفصیل فیضؔ اور ایلس کے خطوط اور دستِ صبا اور زندان نامہ کے ذریعے نوجوان نسل تک پہنچی۔ یہ ابتدا تھی۔ پھر سہروردی صاحب پر غداری کا مقدمہ چلا۔ شیخ مجیب الرحمان کا نام اگرتلہ سازش کیس کی شکل میں طوفان لایا اور پھر وہ بھی فائلوں میں دب کر رہ گیا۔ بعدازاں شیخ مجیب کے چھ نکات کو لائقِ تعزیر سمجھا گیا۔ ولی خان کی پارٹی بین کی گئی سب لوگ کئی سال تک زندان میں رہے۔ پھر ایک دم کئی برسوں بعد وہ مقدمہ ہم بوڑھے لوگوں کی یاد میں رہ گیا۔ بلوچستان کے سارے سیاسی رہنمائوں کو بیک جنبشِ قلم، صوبے کی حکومت بھی، غداری کی تہمتوں کے ساتھ رخصت کر دی گئی۔ ان رہنمائوں میں حاصل بزنجو اور ہمارے دوست شاعر گل خان نصیر بھی قید کی صعوبتیں سہتے رہے۔ ابھی یہ سلسلہ علی وزیر اور محسن داوڑ تک چل رہا ہے کہ وہ کبھی جیل میں اورکبھی قومی اسمبلی میں ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں غداری غداری کھیل بہت کھیلا گیا۔سب سے مشہور دور اور غداری کا مقدمہ تو بگٹی صاحب پر چلایا گیا۔ کبھی وہ بلوچستان کے گورنر تھے اور کبھی غاروں میں چھپے بگٹی صاحب کو یوں نشانہ بنایا کہ ان کی تدفین کے وقت ایک تالہ بند صندوق لایا گیا۔ ان کو مع اس صندوق کے دفن کر دیا گیا۔ احتجاج تو بہت ہوااور یہ سلسلہ جاری رہا۔

بہت دور مت جایئے، زمانہ ہے ضیاء الحق کا۔ میں ابھی لاہور میں تھی۔ ایک دم بندوقوں کے چلنے کی آوازیں آئیں۔ پتہ چلا کہ حکومت گرانے کا منصوبہ ان آخری لمحوں میں پکڑا گیا کہ اس کے سربراہ کے نام کی کرنسی بھی چھپ چکی تھی اور ان موصوف کو فوراً اٹک جیل میں موت کی سزا کے بعد قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ وہ تھے اور ہیں ہم سب کے دوست اور موسیقی کے استاد، وکیل رضا کاظم۔ اس کا ل کوٹھڑی میں وہ لمبی مدت تک رہے۔ رشیدہ جو ان کی فوٹو گرافر اسسٹنٹ تھی۔ خاندان کے علاوہ وہ بھی بسوں میں دھکے کھاتی ملاقات کے لئے آتی رہی اور سزائے موت کے مجرم رضا کاظم نے کہا کہ موت کے پروانے سے پہلے، اس کال کوٹھری میں، رشیدہ کے ساتھ رشتۂ ازدواج طے کروں گا۔ پھر اچانک جانے کیا ہوا (معلوم ہے مگر لکھنا نہیں چاہتی) رضا کاظم کو باعزت بری کر دیا گیا۔ وہ اب بھی بین الاقوامی مقدمے لڑتے، موسیقی کی اکیڈمی چلاتے رشیدہ کے ساتھ زندگی کا لطف لے رہے ہیں۔

سیاست دانوں کے علاوہ سیاسی ورکرز بھی دو سال سے کم عرصہ جیل میں بنام غداری قید تنہائی کا ٹتے رہے۔ پلیجو صاحب جام ساقی ایک بار نہیں، کئی بار گئے۔ مگر سب سےطویل ریکارڈ جوکہ گینز بک میں درج ہونا چاہئے وہ حبیب جالبؔ کا رہا ہے اور سب سے اذیت ناک ملک بدری فہمیدہ ریاض نے کاٹی، پورے سات سال کہ اس نے بھٹو صاحب کی پھانسی پر کہا تھا ’’آج جمہوریت کو پھانسی دیدی گئی‘‘۔ فہمیدہ کو مع اپنے خاندان کے یہ ماہ و سال انڈیا میں گزارنے پڑے۔ یوں تو احمد فرازؔ بھی محاصرہ نظم پڑھنے کے بعد، گرفتاری کے حملوں سے بچنے کے لئے چھ سال ملک سے باہر رہا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جلاوطنی سے واپسی پر اس نے چھ سال کی تنخواہ، عدالت کے ذریعے حاصل کی۔ اب عدالت یاد آئی ہے مریم نواز کے باعث۔ تو بھٹو صاحب کو بھی عدالت نے پھانسی دی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو سزا سنانے والے سارے ججوں نے بعد میں قوم سے معافی مانگی۔ گناہِ بے لذت۔ اب پھر عدالتوں نے گزشتہ 60برس کے غلط فیصلوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے، بقول نظیر اکبر آبادیؔ ’’رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانوں میں‘‘۔ شہزاد اکبر ہوں کہ جسٹس جاوید اقبال اور وہ صاحب جنہوں نے نواز شریف کے گناہوں اور غلط کاریوں کی فائلوں کے دس ڈبے تیار کرکے، سزائیں دلوائی تھیں۔ نجانے اب کہاں ہیں؟

آپ کو یاد ہوگا کہ پشاور کاایک اخبار فرنٹیئر پوسٹ لاہور سے بھی نکالا گیا۔ یہ اخبار چند مہینوں میں چھا گیا۔ اس کے مالک رحمت شاہ آفریدی نے کینال کے نزدیک بہت خوبصورت گھر لے لیا تھا۔ جہاں سیاسی رہنما اوردانشور روز جمع ہوتے تھے۔ یہ کئی سال چلا۔ اچانک آفریدی غائب ہوگیا۔ پرچہ بھی آہستہ آہستہ معدوم ہوگیا۔ کچھ برسوں بعد، آفریدی باہر آگیا۔ اس کو کس بنا پر جیل میں رکھا گیا؟ افواہیں بہت تھیں۔ سچ کیا تھا؟ جب آفریدی ہم سے ملا تو ایک باریش شخص ہمارے سامنے تھا۔ غائب کئے جانے والے بہت سے لوگوں کے نام یاد آرہے ہیں، جس میں نجم سیٹھی کو باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے جگنو نے سارے صحافیوں کے سامنے پیش کیا، ایک دن نجم کے علاوہ بہت سے صحافی اور بلاگر غائب ہوئے۔ کسی کی موت کی خبر بیرون ملک سے ملی اور کسی کی نہر میں اور کوئی دو چارمہینے بعد واپس موجود تھے۔ اس کی وضاحت نہ انہوں نے کی اورنہ عدالتوں نے کچھ پوچھا۔

بہت کم ایسے کیس ہیں جہاں محترمہ بینظیر کی طرح قاتل کو نامعلوم قرار دیا گیا بلکہ نامعلوم قتل تو روز بڑھ رہے ہیں۔ آپ اگر مجھ سے پوچھیں تو میری یادداشت میں جسٹس منیر کی رپورٹ ہے جس نے بہت سے فتنوں کو معاشرے میں اٹھایا۔ جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کو دبایا اور افشا ایسے کیا گیا کہ ملک کو دولخت کرنے والوں کے نام پھر بھی اخفا میں رہے۔ ابھی تک ہم نے جسٹس افتحار چوہدری اور تھوڑا سا جسٹس ثاقب نثار کی جانب انگلیاں اٹھی دیکھی ہیں۔ اب تک بھٹو صاحب کے عدالتی قتل لکھنے والے جج شرمندگی کی موت مرے اور مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے اپنا غصہ نکالا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)