شہیدِ ملت، نواب زادہ، لیاقت علی خان

October 16, 2022

شبیر احمد انصاری

آج شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خاں کی برسی ہے۔ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان اور بعد میں انہوں نے ملک و قوم کے لیے جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ شہید ملت نے شمع آزادی روشن کرنے کے لیے بانیٔ پاکستان کے شانہ بشانہ کام کیا۔ قیام پاکستان سے قبل عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے غریب آدمی کا بجٹ پیش کر کے ہندوئوں اور انگریزوں کی سازشوں کو جس طرح ناکام بنایا،وہ ان ہی کا حصّہ تھا۔

قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے ساتھ مرکزی وزیر دفاع کا محکمہ بھی ان ہی کے سپرد رہا اور بہ طور وزیر دفاع ان کی وہ تقریر بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے دشمن کو اپنا آہنی مکّا دکھاتے ہوئے عوام سے کہا تھا:’’بھائیو! یہ پانچ انگلیاں جب علیحدہ ہوں تو ان کی قوت کم ہوجاتی ہے لیکن جب یہ مل کر مکّا بن جائیں تو یہ مکّا دشمن کا منہ توڑ سکتا ہے‘‘ قائد ملت کا یہی تاریخی مکّا اتحاد وقوت کی علامت بن گیا۔ شہید ملت کی برسی کے موقعے پر خصوصی تحاریر نذرِ قارئین۔

اب وہ زمانہ خواب ہوگیا ہے کہ یہ آسمان، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کا زریں دورِ خلافت دیکھ سکے، یہ تو بہت بڑی بات ہے یہ امر بھی عنقا ہے کہ ہماری نظروں کے سامنے حضرت عمر ثانی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز جیسے حکمران کا زمانہ آجائے اور یہ بھی خواب ہی ہے کہ ہم اورنگ زیب عالمگیر کے دورِ بادشاہی کو دیکھ سکیں، جو تہجد گزار تھے اور اپنی روزی خود کماتے تھے۔ ہماری قابل فخر تاریخ میں اس طرح کے ان گنت واقعات محفوظ ہیں۔ اب اگر اس پر آشوب زمانے میں ہم کسی ایسے حاکم کو دیکھ سکیں کہ جس کی شخصیت و سیرت اور عمل و کردار سے ہمیں اپنی تاریخ کے تابناک اوراق یاد آجائیں تو پھر اس شخصیت کے ہمارے لیے باعث افتحار ہونے میں کیا شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے۔

قائدِ ملت لیاقت علی خاں بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے۔ آپ ایک دولت مند خاندان کے چشم و چراغ تھے، خیر سے نواب تھے اور اس وقت نواب کی اصطلاح سے مراد صرف دولت مند ہی ہونا کافی نہیں تھا، بلکہ عوام کا نمائندہ ہونا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ہر طرح سے ان کا پاسباں ہونا بھی شامل تھا۔ 27رمضان المبارک مطابق 14اگست 1947 کو جب پاکستان معرض موجود میں آگیا اور مسلمان بٹ بٹ کر پاکستان آنے لگے تو ان میں نوابزادہ لیاقت علی بھی شامل تھے۔ سب ہی ایثار اور قربانی کا پیکر بن کر اسلام کے قلعہ پاکستان میں داخل ہورہے تھے، سب ہی نے اپنے عزیز و اقارب کی جدائی کو برداشت کیا تھا، لیکن شہید ملت لیاقت علی خاں نے جب حدود پاکستان میں قدم رکھا تو فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ مجھے دولت اور جاگیر سے نجات مل گئی۔ کیا آپ اسے معمولی بات گردانیں گے، تاریخ اس نوع و کردار کے حامل شخص کو کیسے فراموش کرسکتی ہے۔

شہید ملت کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ آپ مملکت خداداد اسلامی جمہوری پاکستان کے پہلے وزیر، پہلے وزیر خارجہ اور پہلے وزیر دفاع مقرر ہوئے، اگرچہ آپ نے ان سب مناصب کو قبول کرلیا لیکن خود اپنی تنخواہ صرف اس قدر مقرر کروائی کہ جس سے زندگی کے شب و روز سادگی اور قناعت کے ساتھ بسر ہوسکیں، آپ گھر پر سادہ اور پیوند لگے کپڑے زیب تن فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ قمیص کا کالر پھٹ گیا تو آستین کا کپڑا لے کر کالر درست کرایا اور آستین میں پیوند کاری کروائی۔

قائد ملت ایک درویش صفت قناعت پسند تدبر فراست اولوالعزمی قوت ارادی اور صبر و استقلال جیسی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ وقت کی قدآور شخصیات نے آپ کو خراجِ عقیدت پیش کیا، آپ کے گلے میں تحسین و آفرین کے ہار ڈالے۔ بابائے قوم قائد اعظم نے فرمایا ’’قائد ملت میرے دست راست ہیں‘‘ قائد اعظم نے قائد ملت سے ان کی 35برس کی عمر میں قوم کی خدمت کا جو وعدہ لیا تھا، آپ نے اسے بہ احسن پورا کر دکھایا کہ وقت آخر بھی آپ کو وطن عزیز ہی کی فکر دامن گیر تھی، جب ہی تو آپ کی زبان مبارک سے یہ تاریخی جملہ ادا ہوا۔

’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘

سردار عبدالرب نشتر نے آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ اپنے قائد کے وفادار، اپنے دوستوں کے وفادار اور اپنے شرکاء کے وفادار تھے۔ قائد ملت نے بابائے قوم کی وفات کے بعد قوم کو ایک حوصلہ دیا، ان کی شکستہ طبیعت میں ایک روح پھونکی، ان میں ایسی تڑپ، ایسا ولولہ اور ایسی خود اعتمادی پیدا کی کہ کایا پلٹ دی۔ عوام آپ کی سحر طراز تقاریر سننے کے منتظر رہتے تھے اور آپ بولتے تو لوگ آپ کی گفتگو اور تقریر کا ہر لفظ اپنے دل کے نہاں خانے میں محفوظ کرنے اور رکھنے کی کوشش کرتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ کی تقریر کا ایک ایک لفظ اور آپ کی تحریر کا ایک ایک حرف، جذبہ حب الوطنی کا عکاس ہوتا تھا۔

قائد ملت نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:

’’ایک جمہوری ملک کےلیے خاص طور پر یہ ضروری ہے کہ اس کے عمال، ایثار اور دیانتداری سے کام لیں، کیونکہ سرکاری ملازمین ہی ایک ایسا مستقل ذریعہ ہیں، جن سے حکومت اپنی پالیسی پر کامیابی سے عمل کرسکتی ہے۔ اگر ایک ملک کا نظم و نسق اچھا نہ ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور کبھی اپنے نصب العین کو نہیں پہنچ سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ سرکاری ملازمین کو جان لینا چاہیے کہ وہ قوم کے خادم ہیں اور حکومت اور قوم اُن کو صرف اس حیثیت میں قبول کرسکتی ہے۔ ان کو یہ بھول جانا چاہیے کہ وہ قوم کے حاکم اور افسر ہیں، ان کو صرف قوم کی خدمت کا خیال کرنا چاہیے۔‘‘

آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا:

’’میں اُن لوگوں کو جو پاکستان کو محضایک ذریعہ ترقی سمجھتے ہیں، آگاہ کردینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کو پاکستان اور محضپاکستان کےلیے وقف کردیں، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پاکستان میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘

قائداعظم نے قوم کے اندر اتحاد، یقین، محکم اور تنظیم کی جو شمع روشن کی تھی، قائد ملت نے اس کو روشن رکھا۔ مصائب کی آندھیاں چلیں، مخالفتوں کے منہ زور جھکڑ چلے، مگر قائد ملت نے اس شمع کو بجھنے نہ دیا، حتٰی کہ اسے فروزاں رکھنے کے لیے اپنی جان کا قیمتی اور آخری نذرانہ بھی پیش کردیا۔ قوم کی خدمت میںموت آجائے تو اسے موت نہیں کہتے۔ افراد اور اقوام کی بقا کا راز اسی نکتہ میں پوشیدہ ہے ۔قائد ملت شہید ہوکر زندہ جاوید ہوگئے۔

’’صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاوِدانہ‘‘

قائد ملت کی شخصیت و سیرت کے خوب صورت اور قابلِ دید باغمیںکس چیز کی کمی تھی۔ اس باغکے پودوں میں سید شہید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید دہلوی، جیسے انقلاب اور داعی اسلام ہستیوں کی داستان جہاد کی کھاد موجود تھی۔ اس باغکو علومِ جدید اور فکرِ اسلامی کی روشنی ملی۔ اس باغکے رقبہ میں دیانتداری، بھول پن، صاف گوئی، سنجیدگی، غیرمعمولی قوت برداشت اور قوم و وطن سے والہانہ محبت اور وابستگی کے پھول کھلے ہوئے تھے، ان پھولوں میںحاضر دماغی، خوش گفتاری، زود فہمی، قادر الکلامی،شعر و ادب سے دلچسپی اور سب سے بڑھ کر محبت رسولﷺ کی خوشبو رچی اور بسی ہوئی تھی۔

قائد ملت نے اس دنیائے فانی میں یکم اکتوبر 1895 کو آنکھ کھولی اور 16 اکتوبر 1951 آپ کی حیاتِ مستعار کا آخری دن ثابت ہوا۔ آپ نے جس شان قلندری کے ساتھ زندگی گزاری، اسی کیفیت اور جذبہ کے ساتھ منصب شہادت پر بھی فائز ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، بعدازیںقانون کی اعلیٰتعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔ اپنی وکالت کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو دہلی سے شروع کیا، یہاں ضمناًایک بات کا تذکرہ کروں کہ دہلی سے آپ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز اس لیے کیا کہ دہلی غالب اور مومن کا شہر تھا اور آپ ان دونوں عظیم شعراء سے بے حد انسیت رکھتے تھے۔

اردو اور فارسی ادب سے آپ کو بے حد لگائو تھا، فارسی زبان و ادب پر آپ ملکہ رکھتے تھے، جب ہی تو آپ کو قیام لندن کے دوران آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ’’فارسی کی کرسی‘‘ پیش کی گئی۔ آپ نے قیام پاکستان کے پرآشوب دور میں سیاست میںحصہ لینا شروع کیا۔ آپ کی کس قدر خدمات ہیں، وہ سب پر عیاں اور تاریخکا حصہ ہیں۔ آپ نے پاکستان کی سالمیت، آزادی اور اسلامی و جمہوری اقدار کے خلاف سازشوں کے جال کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن آپ اپنے اس مشن کی تکمیل سے قبل ہی رخصت ہوگئے اور یہ مشن تاحال اپنی تکمیل کا متقاضی ہے۔

قائد ملت نے کبھی بڑی سے بڑی مصیبت کے آگے ہتھیار نہیںڈالے، کبھی مایوسی اور قنوطیت کا شکار نہیںہوئے، چنانچہ آپ جب پہلی مرتبہ وزیراعظم کی حیثیت سے امریکہ تشریف لے گئے تو وہاں جرأت مندی کے ساتھ اسلامی افکار کا پرچار کیا اور اسلامی معیشت کی حقانیت کو اجاگر کیا۔

قائداعظم اور قائد ملت کی پوری سیاسی زندگی نظریہ پاکستان کی تفسیر نظر آتی ہے۔ اللہ ان شخصیات کو غریقِ رحمت فرمائے۔ آج اگر یہ شخصیات ہم میں موجود ہوتیں اور اللہ رب العزت ان کو حیاتِ مستعار کے کچھ لمحے اور مرحمت فرما دیتا تو آج ہمارے وطنِ عزیز کی حالت کچھ اور ہوتی۔