وہ لاہور کہیں کھو گیا

October 16, 2022

( گزشتہ سے پیوستہ )

اس سوئمنگ پول پر بڑا خوبصورت گالا ہوا کرتا تھا،کیا ڈسپلن تھا کوئین میری اسکول و کالج کی اساتذہ کی بچیاں اور بچے بھی تیراکی کیا کرتے تھے۔

ڈائیونگ بورڈ سیمنٹ کا ہے جو چار اسٹیپ کا ہے اور آج بھی موجود ہے گوکہ حسب روایت چور مافیا اس سوئمنگ پول کی ہر چیز چرا کر لے جا چکا ہے۔پھر بھی اگر حکومت توجہ دے تو یہ سوئمنگ پول آج بھی آباد ہو سکتا ہے ۔کبھی لاہور کے تمام قدیم اسکولوں اور کالجوں میں کھیلوں پر بہت زور دیا جاتا تھا۔اس شہر لاہور میں راوی دریا پر گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی ) کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی)، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، دیال سنگھ کالج، اورینٹل کالج، لا کالج اور پنجاب یونیورسٹی کی کشتیاں کھڑی ہوتی تھیں اور ان تعلیمی اداروں کے طلباکے درمیان کشتی رانی کے مقابلے ہوتے تھے۔ کوئی یقین کرے گا کہ راوی پر ان تعلیمی اداروں کی لڑکیوں کے مابین بھی کشتی رانی کے مقابلے ہوتے تھے جو لڑکی کشتی رانی کا مقابلہ جیتا کرتی تھی اس کو کوئین آف راوی کا خطاب دیا جاتا تھا ۔اس راوی کے کنارے پر تقسیم انعامات کی تقریبات ہوا کرتی تھیں، ہم نے شاید ہی کسی سال اس تقریب میں شرکت نہ کی ہو ۔ہم یہ مقابلے دیکھنے جایا کرتے تھے راوی کے تینوں پلوں پر لوگوں کا ایک ہجوم کشتی رانی کے یہ مقابلے دیکھنے کے لئے موجود ہوتا تھا حتیٰ کہ ٹریفک بلاک ہو جاتی تھی مگر لڑکیاں بڑے اعتماد کے ساتھ کشتی رانی کیا کرتی تھیں۔آج یہ ماحول ہے کہ کوئی لڑکی راوی پر کشتی رانی کاسوچ بھی نہیں سکتی اور راوی بھی گندا نالہ بن چکا ہے ۔

عزیز قارئین !یقین کریں راوی کے نئے پل سے پرانے پل تک کشتی رانی کے یہ مقابلے ہوتے تھے اور دریا کے بہائو کے مخالف کشتی چلانا ہوتی تھی۔ راوی پر تین پل ہیں ایک ریلوے کا پل ہے ،کیا منظر ہوتا تھا جیسا کہ اوپر پل پر سے ٹرین گزر رہی ہوتی تھی اورنیچے طالبات کشتی رانی کر رہی ہوتی تھیں اب تو دریائے راوی ایک گندا نالہ بن چکا ہے۔ کالجوں کی کشتیاں بھی غائب ہو گئیں ہم نے آخر اس خوبصورت شہر کے ساتھ کیا کیا ؟ہر اچھی روایت ،خوبصورت ثقافت اور تہذیب کو تباہ وبرباد کر دیا ۔ہم نے خود اس راوی دریا پر چار برس تک کشتی رانی کی ہے بلکہ ہم تو اسکول سے دریا پر آ جاتے تھے ہم نے خود کئی مرتبہ ہیر رانجھاکی ہیروئن فردوس کو برقع میں ملبوس کشتی رانی کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔راوی دریا پر کئی فلموں کی شوٹنگزہوا کرتی تھیں ۔کامران کی بارہ دری پر تو کئی فلموں کے گانوں کی ریکارڈنگ ہوئی ہے ،کیا دریا تھا اس دریا پر کبھی بہت سی کشتیاں کھڑی رہتی تھیں، کبھی اس دریا میں چھوٹے جہاز بھی چلا کرتے تھے۔ لاہور کا پہلا اسٹیم ریلوے انجن اس راوی کے راستے آیا تھا اور پھر لاہور میں ریل کا آغاز ہوا تھا، بات کہاں سے کہاں چلی گئی ۔قصہ مختصر،کوئین میری اسکول و کالج کے تاریخی سوئمنگ پول پر واقع مشین روم کے کمرے کے باہر ایک پتھرنصب ہے جس پر یہ تحریر ہے ۔

JOGENDER SINGH BENCHES PRESENTED BY AMAR SINGH BHULCER TO COMMEMORATE VICTORY CEREMONY MAY 1945

کوئین میری اسکول و کالج کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہ اسکول پہلی جماعت سے دسویں جماعت اور او /اے لیول تک اورکالج گیارہویں جماعت سے ماسٹر پروگرام (اب بی ایس آنز تک ہے)تک ہے۔ پرنسپل کے کمرے کے ساتھ میٹنگ روم میں ایک بڑا تاریخی پیانو پڑا ہوتا تھا جس کو ہم نے بھی کئی مرتبہ بجایا تھا، آج اس تاریخی پیانو کا کچھ پتہ نہیں یہ انگریزوں کے دور سے وہاں پڑا تھا اس اسکول و کالج کا قدیم ہوسٹل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جو بڑا اورہوادار ہے اورنیا ہوسٹل انتہائی ناقص مٹیریل سے تعمیر کیا گیاہے اور بالکل ہوا دار نہیں ہے۔اسکول میں آج بھی ستر برس پرانے پنکھے جن کے ساتھ ریگولیٹر کالے رنگ کے ہوتے تھے، چل رہے ہیں ۔اب تو مدت ہوئی ، یہ پنکھے بنانے والی کمپنی ہی بند ہو گئی۔ اسکول میں آج بھی بعض کمروں میں سو برس قدیم فرنیچر کام دے رہا ہے ۔

اس اسکول و کالج کی پہلی مسلمان پرنسپل مسز ایم بی حسن ماشااللہ حیات ہیں جو 1962ء میں اس ادارے کی سربراہ تھیں پوری یادداشت برقرار ہے مگر کسی کو انٹرویو دینا پسند نہیں کرتیں۔ ایک معلومات کا خزانہ ان کے پاس ہے مگر پتہ نہیں کیوں وہ یہ یادیں کسی سے شیئر نہیں کرنا چاہتیں۔ یہ ادارہ جس کو پہلے وکٹوریہ اسکول کہا جاتا تھا اس کا نام 1911ء میں میری آف ٹیک (برطانیہ کی ملکہ) اور ہندوستان کی مہارانی کے نام پر کوئین میری رکھا گیا، میری آف ٹیک کی وفات ملکہ الزبتھ دوم (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے) کی رسم تاج پوشی سے صرف چند روز پہلے 85برس کی عمر میں ہوا تھا، ان کا نام مریم تھا، ان کی ایک رنگین خوبصورت تصویر اس تاج کے ساتھ جو ملکہ الزبتھ پہنا کرتی تھیں وہ آج بھی کوئین میری اسکول کی عمارت میںآویزاں ہے ۔

کوئین میری اسکول وکالج کی تاریخی عمارت کو تفصیل سے دیکھنے کے بعد ہم اس اسکول میں واقع لیڈی شہاب الدین کے محل کو دیکھنے چلے گئے۔ یہ محل کیا ہے کسی زمانے میں بڑا آباد اور خوبصورت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس محل کو گو کہ تعلیمی مقاصد کے لئے دیا گیاتھا مگر بعد میں یہ پرنسپل کی رہائش گاہ بنا دیا گیا۔ آج یہ عمارت خالی پڑی ہے انگریزوں کے دور میں جو ڈاک بنگلے ،کینال ریسٹ ہائوس اور مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی رہائش گاہیں بنائی جاتی تھیں ان میں کچن مرکزی رہائشی عمارت سے ذرا فاصلے پر ہوتے تھے۔ (جاری ہے )