کرما کے بارہ قوانین

November 09, 2022

ہندوستانی فلسفے اور مذاہب میں ایک تصور ہے ’کرما‘ ۔ اِس سے مراد وہ آفاقی قوانین ہیں جن کے تحت کسی بھی فرد کے اچھے برے اعمال کے نتیجے میں اُس کے مستقبل کا تعین ہوتا ہے ،انہیں’’کرما کے قوانین‘‘کہا جاتا ہے۔ابراہیمی مذاہب (یہودیت، عیسائیت، اور اسلام)کے برعکس، جن میں سزا اور جزا کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ، وہ چاہے تو بخش دے اور چاہے تو سزا دے ، کرماکی پیروی کرنے والے مذاہب — ہندو مت، بدھ مت اور جین مت — میں کوئی خدا یا خارجی قوت یہ کام نہیں کرتی بلکہ کرما کےقوانین کےتحت اعمال کےنتائج از خود سامنے آجاتے ہیں۔یوں سمجھیں کہ جس طرح کائنات میں طبیعات کے قوانین آفاقی اور اٹل ہیں اور اُن میں کسی قسم کی قدرتی مداخلت نہیں ہوتی اسی طرح کرما کے ماننے والوں کے نزدیک کرما کےقوانین بھی خود کار نظام کے تحت کائنات میں خاموشی سےکام کرتے ہیں اور وقتِ مقررہ پر اِن کا نتیجہ سامنے آتا ہے ۔کرما کے یہ قوانین ہیں کیا؟ کرما کا پہلا قانون ہے کہ ہم اِس دنیا میں جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ پلٹ کر ہمارے سامنےآجاتا ہے، اسے علت و معلول کا قانون بھی کہا جاتا ہے۔کرما کا دوسرا قانون ہے کہ کوئی بھی چیز خود بخود پیدا نہیں ہوتی ،زندگی میں تبدیلی لانے کیلئےضروری ہے کہ اس کے اسباب پیدا کیے جائیں ، یہ ممکن نہیں کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور زندگی میں واقعات آپ کی مرضی کے مطابق وقوع پذیر ہوتے رہیں۔کرما کا تیسرا قانون ہے عاجزی، آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کی موجودہ زندگی دراصل آ پ کے گزشتہ اعمال کا نتیجہ ہے سو کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے عاجزی سے اس حقیقت کو قبول کریں ۔ کرماکا چوتھا قانون ہے کہ دنیا کو بدلنےسے پہلے ضروری ہے کہ خودکو بدلا جائے ، جب آپ خود کو تبدیل کرنا شروع کریں گے تو دنیا میں مثبت تبدیلی خود بخود آنا شروع ہوجائے گی اور اِس بات کا قلق جاتا رہے گا کہ دوسروں کی زندگیاں تبدیل کرنے کا اختیار آپ کے پاس کیوں نہیں ہے ۔کرما کا پانچواں قانون ہے کہ اپنی زندگی میں ہونے والی باتوں کی مکمل ذمہ داری ہماری اپنی ہے، ہم اپنی مرضی سے کیے گیے فیصلوں کا مجموعہ ہیں۔کرما کا چھٹا قانون ہے کہ ماضی ،حال اور مستقبل آپس میں جڑے ہیں، ہم آج جو ہیں وہ ہمارےماضی کے اعمال کا نتیجہ ہے اور آج جوعمل کریں گے وہی مستقبل میں ہماری شخصیت میں ڈھل جائیں گے یعنی جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ساتواں قانون ارتکاز کا ہے ، ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیزوں پر فوکس کرنا ممکن نہیں ہوتالہٰذا بہتر ہے کہ زندگی میں اعلی ٰ و ارفع اقدار پر فوکس کیا جائے ، پست اور گھٹیا باتوں میں وقت نہ ضائع کیا جائے ۔آٹھواں قانون ہے کہ ہم اِس کائنات کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں اِس کے لیے اسی سمت میں کوشش کرنی چاہیے یعنی اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ دنیا امن اور شانتی سے رہے تو ہمیں امن کو فروغ دینے کے اقدامات کرنا ہوں گے ،یہ ممکن نہیں کہ ہم دنیا میں امن کا پیغام پھیلائیں اور ساتھ اسلحے کے ڈھیر بھی اکٹھے کرتے رہیں۔نواں قانون ، ذہنی سکون اور شانتی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی سے جان چھڑائیں اور حال پر فوکس کریں۔دسواں قانون،تاریخ اُس وقت تک اپنے آپ کو دہراتی رہے گی جب تک ہم اُس سے سبق نہیں سیکھیں گےاوراُس کا چکر تبدیل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائیں گے۔گیارہواں قانون، اپنے اچھے کرموں کا صلہ پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صبر اور مستقل مزاجی سے کام لیں، اپنے اہداف کو مسلسل پانے کی کوشش کرتے رہیں ، پھل آپ کی جھولی میں آن گرے گا ۔ بارہواں قانون،اِس دنیا میں اپنے حصے کاکام کرکے جائیں ، آپ کا کیا ہوا چھوٹا سا کام بھی کسی کی زندگی بدل سکتا ہے ، خودکو غیر ضروری اور اِس زندگی کو بے مقصد نہ سمجھیں ، آپ کے وجود کی انفرادیت کی بدولت اور آپ کے کسی ہنر اور قابلیت کی وجہ سے یہ دنیا بدل سکتی ہے ۔کرما کےاِن قوانین میں تکرار ہےلیکن قطع نظر اِس بات سے یہ قوانین انسان کے لیے اطمینان اور آسودگی کا باعث ضرور ہیں ۔اِن میں سے کچھ قوانین تو عام فہم ہیں جن میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی، جیسے کہ زندگی میں اُس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک ہم خود اس کے لیے عملاً کوشش نہ کریں اور یہ کہ ہم دنیا کو جس طرح دیکھنا چاہتے ہمیں اپنا عمل بھی اسی طرح کرنا چاہیے،وغیرہ وغیرہ۔مگر کچھ قوانین ایسے ہیں جو بظاہر تو اٹل لگتے ہیں مگر حقیقت میں نہیں ہیں،مثلاً موجودہ زندگی ہمارے گزشتہ اعمال کا نتیجہ ہے، یہ بات بے سروپاہےکیونکہ ہم یہ جان ہی نہیں سکتے کہ گزشتہ اعمال کون سے تھے جن کی بدولت ہمیں موجودہ زندگی میں ’سزا‘ مل رہی ہے، اسی طرح بعض اوقات پیہم کوشش بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اکثر لوگ غلط سمت میں جدو جہد کرتے رہتے ہیں ۔ کرما کے قوانین کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہمارے ہر عمل کا ایک رد عمل ہے ،ہم جیسا عمل کریں گے ویسا ہی جواب میں پائیںگے ،انہیں آپ نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کا فلسفیانہ نسخہ بھی کہہ سکتے ہیں ، اِن قوانین سے یوں لگتا ہے جیسے اس دنیا میں ہی ہر بندے کے ساتھ انصاف ہوجائے گا،حالانکہ حقیقت یہ نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا نا انصافی پر کھڑی ہے اور یہ بات ہم جتنی جلدی تسلیم کر لیں اتنا ہی اچھا ہے۔ اگر کسی کو اِس بات میں شک ہو تو وہ انسانوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کی تاریخ نکال کر دیکھ لے، پھر بھی تسلی نہ ہو تو اُن رسومات کے قصے پڑھ لے جن میں بتایا گیا ہے کہ کیسے کھولتے ہوئے الاؤ میں بچوں کوپھینک کر اُن کی قربانی دی جاتی تھی اور اگر یہ سب باتیں ہمیں قبل از مسیح کی لگیں تو حالیہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں بلکہ تاریخ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے اپنے گھر سے باہر نکلیں اور سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئےبچوں کو دیکھ لیں، بے آسرا لوگوں کو سیلاب میں ڈوبتےہوئے دیکھ لیں اور بڑے بڑے شاپنگ مالز میں کام کرتی ہوئی لاغر لڑکیوں کو دیکھ لیں ، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ دنیا کرما کے قوانین پر نہیں بلکہ نا انصافی کے قوانین کے بل پر کھڑی ہے،لہٰذا اگلی مرتبہ اگرکوئی کہے کہ یہ سب آپ کے اچھے کرموں کا نتیجہ ہے تو اُس کا عاجزی سے شکریہ ضرور ادا کریں ،اُس پر یقین نہ کر بیٹھیں!