کالج کے تناؤ سے کیسے نمٹا جائے؟

November 13, 2022

بہتر تعلیمی کارکردگی دکھانے کی توقع کالج کے طلبہ میں تناؤ کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہائی اسکول کے برعکس، کالج میں طلبہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اساتذہ کی زیادہ رہنمائی کے بغیر اپنی پڑھائی کا بوجھ سنبھال لیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ بہتر تعلیمی کارکردگی دکھانے کے مطالبات میں جوں جوں اضافہ ہوتا ہے، طلبہ کا ذہنی تناؤ بھی بڑھنے لگتا ہے جبکہ فائنل امتحانات سے پہلے یہ عروج پر ہوتا ہے۔

کالج میں کچھ سیمسٹرز دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور محنت طلب ہوتے ہیں اور ایسے میں جب طلبہ کو معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، تو وہ زیادہ تعلیمی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب طالب علم کسی کورس کو اپنے اوپر حاوی کرلے یا اسے کسی نئے شعبہ میں اپنا الیکٹیو (elective)لینا پڑے۔

یہ جان کر تسلی ہو سکتی ہے کہ تعلیمی تناؤ ایک مشترکہ تجربہ ہے، جس میں شدت اور بحالی کے قابل پیش گوئی پیٹرن ہیں۔ یہ جاننے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ تناؤ میں عارضی اضافہ بعض حالات میں طلبہ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ چار سالہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب طلبہ نے منفی موڈ کا تجربہ کیا تو سمسٹرز میں اعلیٰ درجات حاصل کیے۔

ایک سمسٹر کے دوران منفی مزاج میں اضافہ اس بات کی عکاسی کر سکتا ہے کہ تعلیمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اضافی کوشش کی ضرورت تھی۔ اس اثر کو صرف ان طلبہ کے لیے دیکھا گیا جو مجموعی طور پر خوش تھے، یہ بات اچھے جذباتی توازن کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

کچھ طلبہ اپنی زندگی کے دیگر شعبوں میں زیادہ تناؤ کا سامنا کرنے کے باعث اپنے کالج کا سفر مثبت طریقے سے شروع نہیں کرتے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ مالی معاملات کی وجہ سے ہونے والا تناؤ طلبہ کو کمزور کرتا ہے۔ جب بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو تعلیمی کامیابی پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ طلبہ کا ایک اور گروہ جنہیں اپنے انفرادی تجربات کے مطابق معاونت کی ضرورت ہو سکتی ہے، ان میں ایسے طلبہ شامل ہیں، جن کے پاس اکثر ایسے خاندانی وسائل نہیں ہوتے جو اِن کے والدین کو کالج جاتے وقت دستیاب تھے۔

اس کے علاوہ، دوسرے ممالک کے طلبہ جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی فیملی سے دور رہتے ہیں، انھیں بھی مالی معاونت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ معذوری اور دماغی صحت کی مشکلات میں مبتلا طلبہ کو اکثر کلاس رومز اور کیمپس کے آس پاس مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کالج کے کیمپس میں بڑھتے ہوئے تنوع کے ساتھ، اب کالجوں کے لیے یہ معیاری پریکٹس ہے کہ وہ کیمپس میں آنے والے ضرورت مند طلبہ کی مدد کے لیے دفاتر وقف کریں۔

دوستی اور سماجی ضروریات کے ساتھ پڑھائی میں توازن قائم رکھنا کالج کے طلبہ کے لیے تناؤ کم کرنے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ کالج جانے کا مطلب اکثر نئے دوست بنانا اور دوسروں کو پیچھے چھوڑ آنا ہوتا ہے، اور جب مسابقتی ضروریات پر تنازعات پیدا ہوتے ہیں یا دوستی کی توقعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ بھی تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ کالج کے طلبہ کے لیے دوست معاونت کا ایک بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، تحقیق میں یہ پایا گیا کہ کالج کے طالب علموں نے اپنے مسائل کے حوالے سے کسی ایسے دوست کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے خود کو کم پریشان محسوس کیا جو نئے طریقوں سے مسائل کے بارے میں سوچنے میں اچھا تھا۔ کالج سماجی نیٹ ورکس کو وسعت دیتا ہے اور کیمپس میں معاون دوستی تلاش اور استوار کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہوتے ہیں۔

طلبہ کیلئے تناؤ کی لچک

ان پیٹرن اور تناؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ طلبہ اپنے تعلیمی معاملات کو سنبھالنے، مثبت مزاج اور تعلقات کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے والی سرگرمیوں میں حصہ لینے، اور ضروریات کو پورا کرنے والے معاون کی تلاش میں سرگرم رہیں۔ ایسا کرنے سے طلبہ کو اپنے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔

کالج اور یونیورسٹیاں بہت سے پروگرام پیش کرتی ہیں جن کا مقصد طلبہ کو تعلیمی ضروریات اور تناؤ کو سنبھالنے میں مدد کرنا ہوتا ہے۔ یہ پروگرام صحت اور تندرستی کی خدمات؛ مشاورت اور نفسیاتی خدمات؛ اور تعلیمی معاونت کے پروگراموں کے ذریعے پیش کیے جا سکتے ہیں۔

دنیا کی نامور یونیورسٹیوں میں مائنڈفل نیس مراقبہ اور خود ہمدردی کی تربیت مقبول اختیارات ہیں، جو طلبہ کو تناؤ اور ناکامیاں مینج کرنے کے لیے ٹولز فراہم کرتے ہیں۔ ٹائم مینجمنٹ اور ٹیوشن پروگرام طلبہ کو تعلیمی مطالبات کو زیادہ پائیدار طریقے سے منظم کرنے کے لیے ٹولز فراہم کرتے ہیں۔

سپورٹ پروگرامنگ کی طرح، کالجز اور یونیورسٹیاں لاتعداد کلب، کھیل، نظم و نسق، اور پرفارمنگ آرٹس کی سرگرمیاں پیش کرتی ہیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یونیورسٹی میں غیر نصابی سرگرمیوں کو جاری رکھنے والے طلبہ میں خود نظم و نسق کی بہتر صلاحیتیں ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ یہ سرگرمیاں نئے دوست بنانے کے لیے بھی بہترین جگہیں ہیں۔

یہاں تک کہ اگر طالب علم تناؤ کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی انھیں مشکل وقت کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے انھیں چاہیے کہ وہ سپورٹ پروگرام اور سرگرمیاں تلاش کریں تاکہ تناؤ کو منظم کرنے کی حکمت عملی اور عادات قائم کی جا سکیں۔ اسی قسم کی حکمت عملی اور عادات آپ کو کالج کے بعد کی زندگی میں فائدہ پہنچائیں گی ۔ کئی متعلقہ مہارتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ استقامت اور حوصلہ ان طریقوں کا حوالہ دیتے ہیں جن سے لوگ اہداف، چیلنجوں اور ناکامیوں کو مینج کرتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق منصوبوں پر کام نہ کرنے کے باوجود، حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے زیادہ تر طلبہ فلاح و بہبود کے ساتھ کوششوں کو بڑھانے، ضرورت پڑنے پر اپنے اہداف کو ایڈجسٹ کرنے، اور چیلنجوں کے ذریعے آگے بڑھنے میں کامیاب رہے۔ یہ گریجویٹس بھی مقصد کے احساس کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، یا ایک عام احساس کے ساتھ کہ وہ ایک بامعنی راستے پر ہیں، اور جس راستے پر وہ چل رہے ہیں اس پر وہ مستقبل میں اچھی چیزوں کے ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔

مزید برآں، ان کے مقاصد کیسے اور کب حاصل کیے جائیں گے اس کے بارے میں ان کی توقعات لچکدار تھیں، اور وہ نئے یا غیر متوقع مواقع کے لیے اوپن تھے۔ آخر کار، حال ہی میں فارغ التحصیل افراد کے پاس زیادہ صحت مند سماجی نیٹ ورکس بھی تھے جن پر وہ مشورے، راحت اور راستے میں مدد کے لیے بھروسہ کر سکتے تھے۔

والدین کا کردار

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ وہ تھے جن کے والدین گرمجوش تھے اور ان کی زندگیوں میں شامل تھے۔ اس قسم کے والدین اپنے بچوں کے لیے محبت کرنے والے، دیکھ بھال کرنے والے اور قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں سے بات کرتے اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

وہ سن کر، اپنے بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت دے کر، اور مسائل پیدا ہونے پر آواز اٹھانے والے سائن بورڈ بن کر اپنے بچوں کے وقت کے ساتھ ساتھ خودمختار ہونے کی حمایت کرتے ہیں۔ کالج کے زیادہ تر طلبہ اپنی زندگی میں اپنے والدین کی صحت مند شمولیت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔