شدید موسمیاتی تبدیلی کا دور

November 18, 2022

شرم الشیخ میں سب سے بڑی ،موسمیات کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں ہم اپنا حصہ ڈال کر لندن چلے گئے۔ کانفرنس ابھی جاری ہے۔ جوبائیڈن اور پیوٹن کا خطاب باقی تھا مگر ہم نے 31ارب ڈالر کی دُہائی دی، فرض ادا کیا اور چار دن تک برادرِ بزرگ کے گھٹنے سے لگ کے بیٹھ رہے۔ میدان خالی دیکھا تو وزیر داخلہ نے بھی اسپتال جانے ہی میں عافیت جانی۔ ادھر عمران خان نے باہر کےبڑے بڑے ملکوں کو انٹرویو دیئے۔ سوال ہر جگہ یہی تھا کتنی گولیاں لگیں۔ اس کے بعد بقول فراز ’’پھر اس کے بعد میں سو سو وضاحتیں کرنی۔‘‘ جس کو ذمہ دار قرار دیا، اس کی پیشی ہی نہیں ہوئی۔

’’آواز‘‘ ایک عالمی غیر سرکاری ادارہ ہے۔ جب کسی پر مصیبت پڑے، یہ فوراً تمام ملکوں میں میل بھیج کر، فوری اور انتظامی سہولت اور مدد کے لئے آواز اٹھاتا ہے۔ جب سے کانفرنس شروع ہوئی ہے۔ بار بار یاد دہانی کرا رہا ہے کہ فی الحال لالو کے جزیرے کے ڈوبنے کا اعلان ہونے ہی والا ہے کہ سطح سمندر روز اوپر جا رہی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے جکارتہ اور کئی دیگر شہروں کے غرق ہونےکی خبر دی گئی تھی۔ شرم الشیخ میں عالمی کانفرنس کے دوران ہزاروں لوگوں نے سفید کپڑے پہن کر دنیا بھر کی توجہ خاص کر ان 50 ملکوں کے دیوالیہ ہونے کی جانب دلائی جن کا قحط، سیلاب یا موسمیاتی تبدیلی پر توجہ نہ دینے پر ایسا انجام ہوا۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے سلسلے میں سفارشات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ البتہ دہلی میں گزشتہ دو دن سے اسموگ کی وجہ سے اسکول بند ہیں۔ لاہور بھی کوئی زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ کمال یہ ہے کہ گیس کے حوالے سے متعلقہ وزیر خود بیان دے رہے ہیں کہ اگلے دس برسوں میں ہمارے گیس کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ کچھ کرنے کے بجائے اس ڈری ہوئی قوم کو مزید ڈرا رہے ہیں، بیشتر گھروں میں ویسے ہی گیس نہیں آ رہی۔ ہماری بچیوں اور بہنوں کو رات بارہ بجے ،جب گیس آئے تو، کھانا پکانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ گزشتہ 22برس میں یکساں نصاب کی تکرار نے ایک طرف تو قوم کے نوجوانوں کو قطعی طور پر غیر سیاسی کردیا ہے۔ اس حد تک کہ بابراعظم بھی اگرکوئی میچ جیت جائے تو نوجوان اسے وزیراعظم بنانے کا کہہ کر پلے کارڈ لئے پھریں گے۔ کمال بات یہ ہے کہ عمران خان شاید گولی لگ جانے کے بعد کچھ سچ بھی بولنے لگے ہیں۔ بار بار کہہ رہے ہیں ہمارے زمانے میں بہت غلطیاں ہوئیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں ابھی تک ایجنسیوں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ اس لئے وزیر آباد حملے کی اطلاع انہیں دوماہ پہلے سے تھی۔ افواہ کو سچ ثابت کرنے کیلئے پلاسٹر بھی چڑھوا لیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک بادشاہ نے انڈیا پر 13حملے کئے۔ ابن انشا نے اپنی کتاب میں پوچھا تھا کہ اس نے چودھواں حملہ کیوں نہیں کیا تھا؟ یہ فقرہ کسی نے اعلیٰ حضرت کو سنا دیا ہوگا کہ ریت کی بوریاں بھی حفاظت کے لئے آراستہ ہیں، ہے کسی کا جگرا کہ سامنے آئے اور منہ کی کھائے۔ اب تو جناب امریکی مدح میں آگے آگے ہیں۔

ہمارے سب رہنما بار بار بتاتے ہیں کہ ہمارے غیر ممالک میں آباد لوگ، پیسے بھیج کر ہماری معیشت کو بچاتے ہیں۔ میں نے ایک صاحب علم سے پوچھا کہ جو سرمایہ بیرون ملک سے آتا ہے، اس کو ہم سمجھنے کے لئے کیسے تقسیم کریں۔ انہوں نے بتایا کہ 70فیصد رقم تو ہمارے مزدور پیشہ لوگ اپنے خاندان کے لئے بھیجتے ہیں اور مشکل سے 30فیصد پڑھے لکھے لوگ بھیجتے ہیں ان نوجوانوں کو جو تحقیق اور نئے موضوعات پر ریسرچ اور اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں،ان میں بیشتر نوجوان اکثر وظیفہ حاصل کر کے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ورنہ ایم اے کرنے والوں کو بھی اب علم ہو گیا ہے کہ لیکچرر کی نوکری بھی پی ایچ ڈی کرنے کے بعدملےگی، وہ بھی پبلک سروس کمیشن کے ایک اور امتحان کے بعدہی مل سکتی ہے۔ جب ہی تو کسٹم، پولیس اور ریلوے میں بھرتی ہونے والے 90فیصد ایم اے پاس ہوتے ہیں کہ ان محکموں میں ترقی اور اوپر کی آمدنی میں بھی اللہ کا فضل ہے۔ ویسے ہم نے کبھی خبر لی کہ غیر ممالک میں ہمارےمزدور پیشہ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے، کبھی ہم نے ان کو ملازم رکھنے والوں کی زیادتیوں کا حساب لیا۔ ہمارے سفارت خانوں نے کبھی کسی کو بے جا پکڑنے اور اذیت دینے یا پیسے نہ دینے پر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ہم ہر شعبہ میں بیگانگی کا اظہار کرتے ہیں۔ سیاست دان، سب کی ایک ہی آواز ’’میں اگر بول پڑا تو چھتیں اڑ جائیں گی‘‘، ہم لوگ تنگ آکر بول لیتے ہیں کہ اب جو کہنا ہے کہہ لو کہ تم سب عیبوں کو بہت چھپا چکے۔ اب تم سب نوجوان نسل کے لئے راستہ چھوڑدو کہ تم رہنمائی تو دے نہیں سکے۔ بڑے نعرے تھے ’’ہم جیتیں گے‘‘ اسکول کے بچوں کی طرح بیٹنگ کی اور عالمی ٹی20- فائنل میں اتنا شرمناک کھیل پیش کیا کہ ان کے سامنے ہردفعہ بال خالی اکیلی بائونڈری پر جاتی رہی۔ ہم پیچھے پیچھے بھاگتے رہے۔ مجھے ترس آ رہا تھا، تماشائیوں کے ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنے والوں پر کہ ہم تو کرکٹ نہیں، گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ اب کوئی رعایت نہیں دینی چاہئے۔

چین اور سعودی عرب کے علاوہ کوئی اورملک ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں کہ وہ لوگ بھی تو تصویروں میں دیکھ رہے ہوں گے کہ لاڑکانہ میں غریب کسان اپنی زمین صاف کرنے کے لئے اپنے ہاتھ پیروں سے کام لے رہا ہے۔چینیوں نے البتہ ایک ٹینٹ ویلیج بنایا ہے۔ یہ سب عارضی کام ہیں۔ جب تک تباہ شدہ پلوں، سڑکوں، ڈیموں،تمام گھروں کو کم سے کم سرمائے سے قابل استعمال بنانے کا تحریری منصوبہ روبۂ عمل نہیں ہوگا، اس وقت تک وزیراعظم کا کانفرنسوں میں دُہائی دینا، بے اثر رہے گا۔ کانفرنس میں تو غربت میں 1.1فیصد کمی نہیں، اضافہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)