ڈائری کا ایک ورق

November 20, 2022

اٹھارہ نومبر میرے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ابھی ابھی گزرا ہے ۔ سو ابھی تک تکلیف میں ہوں ۔ اس دن میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی اس دنیا سے چلے گئے تھے ۔ وہ مجھ سے صرف چار سال بڑے تھے اور میں انہیں دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ اتنے بڑے شخص کاچھوٹا بھائی ہوں ۔ مجھے ان سے مل کر ہمیشہ ایک فرحت کا احساس ہوتا تھا۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ

آ پ نے شاید دیکھے نہ ہوں مگر ایسے بھی ہیں

میں نے ان کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالی، وہ مجھے محبوب تر نظر آئے۔ان کی شخصیت کی بے پناہ جاذبیت انہیں ہر محفل میں ممتاز رکھتی تھی۔ ان کی شہد آمیز گفتگو کانوں میں رَس گھولتی تھی ۔ لیکن ان کی آواز میں شراب کا خمار نہیں بلکہ خوابیدہ ذہنوں کو جگانے والی پکار تھی۔ اشفاق بھائی ایک اچھے شاعر اور خوبصورت ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سحربیاں مقرر بھی تھے۔ مت پوچھیئے اندازِ گل افشانی گفتار۔ وہ جب بولتے تھے تو شعلہ سالپک جاتا تھا۔ مضبوط ارادوں اور سچے عملوں والے اس شخص کی آنکھیں ہر وقت مجھے اپنے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ۔ وہ زندگی سے بھر پور چہرہ کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کرسکتا تھا ۔ وقت اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹھہر سکتا تھا۔ ان کی بزم میں لمحے رک جاتے تھے ۔ وہ اپنے اندر جذبوں کے طوفان رکھتے تھے ۔ ان میں کچھ کر گزرنے کی طاقت تھی ۔ وہ محبت کرنے والے تھے جب مجھ سے بغل گیر ہوتے تھے تو مجھے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ۔

میں نے جب اپنا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’ آفاق نما‘‘ شائع کر ایا تو ان سے بھی ایک فلیپ لکھوایا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا ، ’’ نعت اگر رسماََنہ لکھی گئی ہو بلکہ کسی باطنی کر ب کے اظہار کا ذریعہ بن کر سامنے آئے تو پڑھنے والے پر ایک جداتاثر چھوڑتی ہے۔ ایسی نعت داغ محبت رکھنے والے ہر دل کو وہی کیفیت عطا کرتی ہے جو اس کے خالق پر لمحاتِ تخلیق میں طاری ہوتی ہے۔ محمد منصور آفاق کی نعتیں اس کے طواف عقیدت کا سلسلہ جمیل ہیں۔ تحدیثِ نعمت کا دلکش اسلوب ہیں ۔ سنت اللہ کا حسین اتباع ہیں ۔ اپنی احتیاج وضرورت کا خوبصورت اظہار ہیں اور اس کے ساتھ عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ ِرسالت مآب ﷺمیں استغاثہ ہیں۔ یہی میری نگاہ میں اس کتاب کی نمایاں ترین خصوصیت ہے ۔ آفاق نمادنیائے شعر و ادب میں منصور آفاق کی اولین پہچان بن کر آرہی ہے۔ میری دعا ہے کہ رب کریم اسی نسبت کواس کی دائمی پہچان بنادے۔ آمین ثم آمین۔

میری نعتیہ شاعری پر سب سے زیادہ اثر ات بھی انہی کے مرتب ہوئے۔ انہی کی زبان میں میری شاعری عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآبﷺ میں استغاثہ ہے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں دنیا کے غم بیان کرنے کا انداز میں نے انہی سے سیکھا تھا ۔ان کے بعدتو پھر ایک عہد نے انہی کے انداز میں نعتیہ شاعری کی ۔ان کے دونعتیہ شعر دیکھئے:

ہیں سجدہ ریز کہاں کجکلاہ امت کے

غلام آپ کے ہوتے تھے شاہ امت کے

حضور پائوں میں رکھ لیجئے خیال و خواب

بھٹکتے پھرتے ہیں قلب و نگاہ امت کے

فقیرانہ عنصران کے مزاج میں بہت زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا ایک مصرعہ میانوالی کے ایک اور شاعر نے اپنی غزل میں استعمال کرلیا تو انہوں نے اپنے شعر ہی کو کاٹ دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کیا بات ہوئی توہنس کر کہنے لگے ۔ چلویہ سمجھو کہ یہ مصرعہ خیرات میں چلا گیا ۔ ان کی ایک غیر منقوط نعت جب ’’ ماہ نو‘‘ میں شائع ہوئی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مظفر علی سید نے مجھ سے کہا تھا میں نے بہت سے شاعروں کی غیر منقوط شاعری پڑھی ہے مگر اس نعت کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ شخص اگر کوشش کرے تو اردو ادب کو کوئی زندہ جاوید غیر منقوط شعر دے سکتا ہے۔

آج بھی جب ان کے زندہ جاوید اشعار کے مصرعے نعروں کی صورت میں مسجدوں میں گونج رہے ہوتے ہیں تو میرا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔ یہ نعتیہ شاعری اس دور کی ہے جب اشفاق بھائی نوجوان تھے اور انجمن طلبائے اسلام پنجاب کے ناظم ہوا کرتے تھے ۔

یہ جاہ اور جلال کیا ، یہ مال اور منال کیا

غلامی رسولﷺ میں تو موت بھی قبول ہے

یونہی فراتِ وقت پر یہ رن پڑا ہوا نہیں

کسی کا باپ ہے علیؓ کسی کی ماں بتولؓ ہے

بتولؓ کے، نواسہ رسولﷺ کے غلام کے ہیں

مدینہ تیرے ایک ایک پھول کے غلام ہیں

جبیں پہ داغ دین کے ، گلے میں طوقِ مصطفیٰ ؐ

غلام ہیں غلام ہیں رسولﷺ کے غلام ہیں

اٹھارہ نومبر مجھ پر ابھی تھوڑی دیر پہلے گزرا ہے ۔ سو بہت اداس ہوں ۔ بہت غمگین ہوں۔تقریباً بائیس برس ہونے کو ہیں ۔ ہر سال یہ اٹھارہ نومبر مجھے اسی طرح ملول اور غمزدہ کرتا تھا۔میں ناصر کاظمی کا یہ شعر سوچنے لگتا ہوں،

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)