عمران کی تاریخی سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن

November 29, 2022

الحمد للہ! دنیا بھر کے میڈیا کیلئے پاکستان میں دلچسپ خبر سازی کے طویل دورانیے کے بجتے گھنٹے کی تشویش بھری ٹن ٹن ختم ہوئی۔ ہمارے بدتر سیاسی حکومتی نظام اور اس سے نکلی گورننس اور اسٹیٹس کو سیاست کی چپقلش اور خود اسٹیبلشمنٹ کے نادیدہ لیکن شدت سے زیر بحث رہنے والے مسائل میں چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کا طویل پس منظر، واضح آئینی راہ کے باوجود جس طرح سیاسی رنگ میں رنگا گیا اور اک غیر ضروری قضیہ بنا، بالآخر ختم ہوا۔ پوری قوم نے اطمینان کاسانس لیا کہ یہ کار عظیم خوش اسلوبی اور مکمل ملک گیر قبولیت سے انجام پایا۔ پوری قوم خصوصاً نئے تعینات ہونے والے جنرل صاحبان کو مبارک۔ دعا اوریقین ہے کہ وہ تمام ان خامیوں اور کمیوں کو دور کرنے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے جو ملکی دفاع کے مضبوط تر بننے کی ناگزیر ضرورت ہے۔

متذکرہ پیش رفت کے متوازی اور پس منظر میں جان ہتھیلی پر رکھے زخمی عمران خان کی تاریخ ساز SOCIO-POLITICAL MOBILIZATION کا ایک بڑا مرحلہ بھی مکمل ثمر آوری سے ختم ہوا۔ یہ ملک بھر میں امڈے اس سیاسی تغیر کا طویل فالو اپ تھا جو دس اپریل کی رات اختتام ہوتے ،رمضان المبارک کی شب میں عمران حکومت اکھاڑنے کے ردعمل میں حیرت انگیز اور قطعی غیر متوقع ملک گیر سیلف پبلک موبالائزیشن کی شکل میں شہر شہر اور قصبہ سے اور بیرون ملک پاکستانی ڈائس پوراسے عود آیا۔ جتنا غیر امکانی یہ تھا اتنی ہی برجستگی اور ذہانت سے حکومت کھونے والے عمران نے اپنی کمال حکمت اور عمل پیہم سے اسے ایک ناقابل یقین سیاسی شعور کی قومی لہر میں تبدیل کردیا۔ ملک بھر میں 56 کامیاب ترین سیاسی جلسے اور اسی دوران تین ہونے والے غیر معمولی (امیدواروں کی تعداد کے اعتبار سے) ضمنی انتخابات میں 76 فیصد نشستیں حاصل کرنے کی بڑی ثمر آوری سے خان کی نہ رکنے والی اور مسلسل بڑھتی مقبولیت سے ہوا۔ 10 اپریل کی رات قومی سطح کے متذکرہ طویل ردعمل کا آخری فیچر ان کا لانگ مارچ کا اعلان تھا ،جس کے بعد ان کی جان پر بن گئی اور خان کی زندگی کو واضح خطرات نے گھیر لیا ،جو غلط نہ تھے۔ عزم کے مطابق مارچ ہوا تو ان پر فائرنگ ہوگئی ، وہ اور ان کے ساتھی زخمی اور ایک کارکن جاں بحق ہو گیا ۔ لاہور پہنچ کر زخمی حالت میں بھی انہوں نے لانگ مارچ کو جاری رکھنے کا اعلان کردیا اور اس کی ہیئت اور تاریخیں تبدیل کرتے پھر دوبارہ زندگی کو خطرے کے حکومتی الرٹ کو خاطر میں نہ لا کر راولپنڈی پہنچ گئے۔ ان کا شہر شہر سے مارچ کرتے آئے عظیم اجتماع سے خطاب بہت مدبرانہ تھا۔ اس حوالے سے پوری قوم خصوصاً حکومت کا تجسس دیدنی تھا کہ عمران اب کسی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ خطرات و خدشات میں گھرے ان کا زخمی حالت میں اتنے عظیم اجتماع میں آکر خطاب ہی یقیناً ایک مخصوص اور قابل ذکر فیصد میں ان کے ووٹ بینک کو بڑھا بھی گیا اور موجودکو پکا بھی کرگیا۔ ان کی تقریر تواتر سے ہونے والی جلسہ ہائے عام تقریروں کے برعکس کسی مطالبے سیاسی مانگ اور توقع سے ہٹ کر ملک میں موجود اسٹیٹس کوکے، دو قانونی نظام کی آسان وضاحت کے ساتھ مدلل اور عقلی جواز کے حامل مندرجات پر مشتمل تھی، جس میں خان نے واضح کردیا کہ انتخاب کی تاریخیں جلسے، ریلیوں، حکومت کے آمرانہ اور عوام مخالف اقدامات و پالیسیاں اب مکمل معمول کی اور ثانوی حیثیت اختیار کرگئی ہیں، اب پورا نظام اکھاڑنے کا چیلنج ہے۔ اسے ایڈریس کرکے اسے اکھاڑنا پڑےگا اور اس کیلئے قوم کو ایک مستحکم اور ویل مینڈیٹڈ حکومت لانا ہوگی، جو قانون سازی کرکے اسٹیٹس کو ختم کرکے نئے قومی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق سیاسی و حکومتی اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا سبب بنے۔ انہوں نے اختتام اسی پر کیا کہ اب اس سسٹم میں مطالبے اور لاحاصل قانونی جدوجہد سے کچھ نکالنے کی بجائے ہمیں اس نظام سے نکلنا ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جس سے کوئی ذی شعور پاکستانی نہیںانکار نہیں کر سکتا۔ موجودہ حکومت اب اسٹیٹس کو نظام کی بالکل ناقد نہیں رہی، جبکہ پی ڈی ایم کی سرخیل جماعت کے رہنما خصوصاً وزیر اعظم شہباز شریف الیکشن۔18 کی انتخابی مہم شروع ہونے سے کہیں پہلے یہ سیاسی ابلاغ کرنے لگے تھے کہ یہ نظام گل سڑ گیا ہے جو نہیں چلے گا۔ وہ ایک گھاگ سیاسی لیڈر کے طور عوامی تیور اور ان کی مشکلات کو واضح محسوس کر رہے تھے لیکن وہ اور ان کی پوری جماعت اور اتحادی ہمرکاب اول و آخر اسی نظام بد کے پیروکار ثابت ہو رہے ہیں۔پی ڈی ایم نے بہت سے روایتی متروک ہتھکنڈے دوبارہ استعمال کرکے اور بڑے اور سخت متنازع غیر آئینی سہاروں کے ساتھ ارتقاپذیر سیاسی عمل کو اک بار پھر ساقط کرکے حصول اقتدار میں تو کامیابی حاصل کرلی لیکن فوری ہوئے اور مستقبل قریب کے ایک بڑے خسارے کے ساتھ یوں کہ عمران حکومت کی ہوتی غیر مقبولیت، پی ڈی ایم کی لشکری حکومت کو چمٹ گئی، عمران کی تو جان کو خطرہ ہے لیکن صرف زخمی ہونے سے اس عوام دشمن مہنگائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ریکارڈ قائم کرنے والی حکومت یہی نہیں، انتخابی عمل میں اس کی سب ہی جماعتوں کا سیاسی مستقبل دائو پر لگ گیا۔ عمران خان نے اپنی مثالی اور تاریخ ساز سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن میں عظیم کامیابی کے اختتام پر پنڈی میں صوبائی حکومتوں سے نکلنے اور اسے نظام سے نکلنا قرار دے کر ایسی شطرنجی چال چلی ہے کہ ثابت کیا کہ’’ فرزیں سے بھی پوشیدہ تھا شاطر کا ارادہ۔‘‘ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خان صاحب پی ڈی ایم حکومت کو گھسیٹ کر انتخابی عمل کی طرف لائیں گے۔ سو ان کے ایجی ٹیشنل سیاست جاری رکھنے کے دعویداروں کو سخت مایوسی اور فکر ہوگئی کہ اب الیکشن سے کیسے بچا جائے۔ واہ خان صاحب۔