سیاسی تبدیلی ایسی پُر امن کیوں نہیں ہوتی

December 01, 2022

اب تک تاثر اور تصور یہ رہا ہے کہ دنیا میں امریکہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ پاکستان میں فوج جو چاہے کرسکتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں اکثر فیصلہ کن موڑوں پر اس تاثر کی تصدیق ہوتی رہی ہے۔ کئی نسلیں یہی مشاہدہ کرتیں زیر خاک ابدی نیند سونے چلی گئیں۔ فوج میں تبدیلی کمان کا اہم مرحلہ ہمیشہ بخیر و خوبی سرانجام پاتاہے۔اس کارروائی کے حوالے سے سیاسی جماعتیں آپس میں خوب بیان بازی کرتی ہیں۔ میڈیا ان بیانات کو لے کر ملک میں ایک ہیجان بپا کردیتا ہے۔ اخبارات کا دَور تھا تو ہیجان میں 24گھنٹے کا وقفہ آجاتا تھا۔ اب جب سے الیکٹرونک میڈیا یعنی پرائیویٹ چینل آئے ہیں۔ اب ہیجان ہر آدھے گھنٹے بعد مزید تیز ہوجاتا ہے اور جب سے امریکی کمپنیوں نے فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹا گرام اوریو ٹیوب کے تحفے دیے ہیں اورہم انہیں مال مفت سمجھ کر استعمال کرنے لگے ہیں تو ہیجان میں ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی نہیں آتا۔ ہم تو انہیں بلا قیمت خیال کرکے دن رات اپنے تاثرات ثبت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کمپنیاں ہمارے اس گناہ بے لذت سے اربوں ڈالر کمارہی ہیں۔ یہ سفید فام قوموں کا نیا سامراجی طریق کار ہے۔ اس میں ہم سب استعمال ہورہے ہیں۔ چاہے ملٹری ہو یا سول۔ اطلاع کے دائرۂ کار میں تیز رفتاری آنے سے فائدہ تو یہ ہونا چاہئے کہ جب کہیں طاقت کے کسی ناجائز استعمال کا علم ہو۔ کسی انسان پر ظلم کی خبر ہو۔ تو متعلقہ ادارے حرکت میں آئیں۔ لیکن ہمارے ہاں پروپیگنڈے کا زور ہے۔ حکمراں بھی سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ اپوزیشن بھی۔ عام سیاسی کارکن بھی۔ لیکن محض انتشار میں اضافہ کررہے ہیں۔

میں تو عمر کے آخری حصّے میں بار بار یہ گزارش کرتا ہوں کہ قوموں کے استحکام کا راستہ یہ ہوتا ہے کہ وہ طے کرتی ہیں کہ آئندہ دس پندرہ برس کے دوران ہمارے اقتصادی منصوبے کیا ہوں گے۔ سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا۔ اس منصوبہ بندی میں دنیا کی پیش بندیوں کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے۔ خطّے کی کوششوں اور سازشوں کو بھی۔ اپنے عظیم وطن کے مختلف حصّوں میں آباد مختلف قومیتوں کی آرزوئوں اور محرومیوں کو بھی۔

کہتے تو سب ہیں کہ شخصیتوں کو نہیں اداروں کو پیش نظر رکھا جائے ۔ ادارے افراد سے بالاتر ہوتے ہیں۔ مگر پاکستان جیسے معاشرے جہاں کوئی سسٹم نہیں بن پایا۔ جہاں ادارے مستحکم نہیں ہیں۔وہاں پھر شخصیتوں کے آنے جانے سے فرق پڑتا ہے۔ فطری طور پر توقعات کی جاتی ہیں کہ کسی نئی شخصیت کے آنے سے ادارے کا طرز عمل اور پالیسیاں بدلیں گی۔

اپنی عمر کی کئی دہائیوں میں مغربی اور مشرقی پاکستان میں شخصیت اور اداروں کی جو کارروائیاں دیکھی ہیں۔ ہمیشہ دُعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ وہ دن نہ دکھائے ۔ سنہرا بنگال یاد آتا ہے۔ 1971 کا سال۔ جب ہم ناکام ہوتے گئے۔ حکمراں فوجی تھے۔ مارشل لاء قانونِ وقت تھا۔ ہم ایک لیگل فریم ورک کے تحت دن رات کاٹ رہے تھے۔ کوئی آئین نہیں تھا۔ جو کچھ ہوا۔ اس پر آپ بیتیاں موجود ہیں۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہے ۔ لیکن کیا کسی سول یا فوجی حکومت نے 1971 سے لے کر اب تک ان سے کوئی سبق حاصل کیا۔ پارلیمنٹ سب سے بالاتر ہے۔ اس نے 1972 سے اب تک کبھی زحمت کی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کھل کر بحث کی جائے۔ صرف یہ طے کرنے کے لئے کہ اس میں سیاستدانوں سے، فوجی حکمرانوں سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں اور آئندہ ان سے گریز کیا جائے۔ اب جب ہم ایک نئے سپہ سالار کے 3سالہ دَور میں داخل ہوچکے ہیں اور جب سوشل میڈیا اپنے عروج پر ہے۔ اس وقت پاکستان کے استحکام کے لئے ناگزیر ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت کے بارے میں پھیلائی گئی اطلاعات کا تجزیہ کیا جائے۔ ایک دوسرے کے انتقام میں نہیں۔ بلکہ ان اداروں کے آئندہ استحکام کےلئے۔

پارلیمانی نظام کو سیاسی طور پر ہم سب چلانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا ہمارے مزاج پارلیمانی نظام کی نزاکتوں اور نتائج کو قبول کرتے ہیں۔ اس کی روح عوامی اکثریت کی بالادستی ہے۔ اسلئے اس میں تحریک عدم اعتماد بھی آتی ہے۔ ضمنی انتخابات بھی۔ اسمبلیاں توڑی بھی جاتی ہیں۔ اسے معمول کی کارروائی کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ ان واقعات سے معیشت کیوں ڈانواڈول ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارے مزاج پارلیمانی نہیں ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بادشاہوں کے وارث سمجھتے ہیں۔ اندر سے ہم صدارتی نظام کا مزاج رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پُر امن طریقے سے کیوں نہ ہوسکی۔ اکثریت کیسے بنی۔ ارکان اسمبلی کس طرح توڑے گئے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کی مزاحمت اپنے اقتدار کی طوالت کےلئے کی یا ملکی استحکام کیلئے۔ اس کے خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں یا غلط۔ اپریل سے دسمبر آگیا ہے۔ کچھ دنوں بعد نیا سال شروع ہوجائے گا۔ مگر معیشت قابو میں نہیں آرہی ۔ ملک میں انتشار ہے۔ جہاں وفاقی حکومت کے اتحادیوں کی صوبائی حکومتیں ہیں۔ بلوچستان اور سندھ ۔ وہاں مہنگائی کا کیا عالم ہے۔جرائم کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے۔ عمران خان کے پاس چار حکومتیں ہیں۔ وہاں زندگی آسان کرنے کی کیا ترجیحات ہیں۔؟

معاف کیجئے۔ مجھے ایک معمر پاکستانی کی حیثیت سے حکمراں، اپوزیشن یا کسی بھی ادارے کی طرف سے یہ نوید نہیں ملتی کہ وہ آئندہ دس پندرہ سال کےلئے کوئی لائحہ عمل رکھتے ہیں۔ عالمی ادارے تو یہ کہتے ہیں کہ آبادی بڑھ جائے گی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ غربت کی لکیر سے نیچے مزید کروڑوں چلے جائیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی بھی پاکستان کے لئے بہت سے خطرات لے کر آرہی ہے۔ ہمارے قائدین اور ان کے شہزادے شہزادیاں بھی مستقبل کے لئےکچھ نہیں بتاتے۔ ان کی تکرا رسے لگتا ہے کہ یہ سارے سیاستدان عمر خضر لے کر آئے ہیں۔

کمان کی تبدیلی فوج میں ہوتی ہے تو جانے والا آنے والے کو چھڑی منتقل کرتا ہے۔ باہمی میٹنگ میں گزشتہ اور آئندہ پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔ زبانی بھی تحریری بھی۔ سیاسی حکومتوں میں جب تبدیلی ہوتی ہے تو جانے والا آنے والے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ آنے والا جانے والے کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھنا چاہتا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج میں ڈسپلن کیوں ہے۔ سیاسی حکمرانی میں کیوں نہیں؟