جادو کی چھڑی

December 01, 2022

جادو کی چھڑی سے ہمارا تفصیلی تعارف ہومر کی رزمیہ نظموں ایلیڈ اور اوڈیسی میں ہوا تھا،ہرمیس اپنی چھڑی کی جنبش سے جسے چاہتا سُلا دیتا اور جب چاہتا اٹھا دیتا، ایتھینااپنی جادوئی چھڑی سے کسی جوان کو بوڑھا کر دیتی اور جب چاہتی اسے دوبارہ جوان کر دیتی، اور سرسی کی چھڑی مردوں کو سور بنا سکتی تھی ۔جادو کی چھڑی کا خیال ایک ’Change of Baton ‘ کی تقریبِ سعید دیکھ کرآیا، جس میں ایک صاحب بہ ظاہر سادہ سی لگ بھگ اٹھارہ انچ کی چھڑی ایک دوسرے صاحب کے حوالے کر رہے تھے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ درحقیقت یہ چھڑی اتنی معصوم نہیں ہے ،جادو کی جن چھڑیوں کاذکر ابھی ہم نے کیا وہ تو افسانوی ہیں، مگر یہ سچ مچ کی ہے، اور اس میں وہ سب جادو اکھٹے ہو گئے ہیں جو مختلف یونانی خدائوں کی چھڑیوں میں پائے جاتے تھے، اس چھڑی نے جب چاہا پوری قوم کو سُلا دیا، جب چاہا بوڑھا کر دیا، جب چاہا کروڑوں لوگوں کو دوپایوں کے منصب سے معزول کر دیا۔ یہ چھڑی قوم کو جگا بھی سکتی ہے اور اس کی رگوں میں گرم لہو بھی جاری کر سکتی ہے ، یہ تو صاحبِ عصا پر منحصر ہے کہ وہ ہیری پوٹر بننا چاہتا ہے یا موسیؑ کی سنت پرچلنے والا۔بہرحال، ہماری رجائیت پسندی ہمیں حافظ صاحب سے اچھی امید باندھنے پر اکسا رہی ہے۔

باجوہ صاحب سبک دوش ہو گئے ، انہوں نے چھ سال جادو کی چھڑی لہرائی، اور ریاست و سیاست کو اپنے سحرمیں گرفتار رکھا۔پہلے نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے ایک برہنہ کھیل کی سربراہی کی، عدالتوں کے بازو مروڑے، میڈیا کا ٹینٹوا دبایا،مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سرکش راہ نمائوں کے گلے میں نیب کی رسی ڈال کر گھسیٹا، اور ایک متنازع ترین انتخاب کے نتیجے میں عمران خان کو وزیرِ اعظم کی کرسی تک پہنچایا۔پانچ سال تک پروجیکٹ عمران کے منیجر رہے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ ہائی برڈ نظام اب کم از کم پندرہ سال تک یونہی چلے گا، باجوہ صاحب کے بعد فیض حمید، عمران کی پالکی کے کہار بنیں گے، اور ملک میں عملی طور پر یک جماعتی نظام رائج ہو جائے گا، یعنی بہ قول فیض احمد فیض ’’اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے، جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام، دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام، اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہو گا، اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا‘‘ ۔ لیکن پھر ہم نے’’ واللہ خیر الماکرین ‘‘کی عملی تفسیر دیکھی۔ جب عمران خان نے فوج کی تعیناتیوں میں مداخلت شروع کی تو ادارے کے کان کھڑے ہوئے، اور باجوہ صاحب کی سربراہی میں فوج نے سیاست سے دست کش ہونے کا اصولی فیصلہ کیا، اور کچھ ہی دن میں عمران خان کو وزیرِ اعظم ہائوس خالی کرنا پڑا۔نتیجہ یہ نکلا کہ آدھا ملک تو پہلے ہی باجوہ صاحب سے ناخوش تھا، اب باقی آدھا بھی ناراض ہو گیا، اور یہ کل ملا کے بنا سو فی صد، یعنی پورا ملک۔نواز شریف، آصف زرداری اور ان کے حامی تو باجوہ صاحب سے اپنی ناراضی کا اظہار کسی قاعدے سے کرتے تھے، مگر عمران خان اور ان کے ساتھی تو باقاعدہ گالیوں پر اُتر آئے، ان کی ریٹائرمنٹ والے دن بھی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر دشنام آمیز ٹرینڈز چلائے ۔بے شک، باجوہ صاحب نے نئے چیف کو مشکل کام سونپا ہے، انہیں اب ادارے کی ساکھ بحال کرنے اور اسے سیاسی تنازعات سے بلند کرنے کےلئے اوور ٹائم لگانا پڑے گا۔باجوہ صاحب نے جاتے جاتے اقرارِ جرم بھی کر لیا، فرمانے لگے کہ ہم حلف شلف توڑتے رہے ہیں، لیکن آئندہ ایسا نہیں ہو گا، نہ انہوں نے خود کو کسی سزا شزا کے لئے پیش کیا، نہ ہمارے ذہن میں کوئی ایسا مفسدخیال آیا، باجوہ ڈاکٹرائن ملک کے چھ سال کھا گیا سو کھا گیا، اللہ اللہ خیر سلا۔ہم مزاجاً جانے والوں کی اچھی باتوں کو یاد کرتے ہیں، مگر اب کیا کیا جائے کہ باجوہ صاحب نے زیادہ گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔

فیض حمید بھی گھر چلے گئے، ابھی سال پہلے تک فوج کے اندر اور باہر سب قائل تھے کہ یہ صاحب ہمارے اگلے چیف ہوں گے، مگر بہ قول بلھے شاہ ’میں نہاتی دھوتی رہ گئی‘۔ جس کے تحت فیض حمید کو چیف لگنا تھا وہ ڈاکٹرائن ہی اوندھے منہ جا گرا۔ اس کوچے سے فیض حمیدکے نکلنے پر سب سے معتبر تبصرہ تو جسٹس شوکت صدیقی ہی کر سکتے ہیں، سو فرماتے ہیں ’’آپ کی آئین شکنی، سازشیں، چالاکیاں، مکاریاں، فرعونیت و گھمنڈ اور کئی سال کی محنت کسی کام نہ آئی...اور ابھی قوم کا حساب باقی ہے۔ـ‘‘ جج صاحب ہم آپ کے لفظ لفظ سے متفق ہیں، بس یہ ’حساب شساب‘ رہنے دیں، کہ اس خواہش میں آپ پہلے بھی بے حساب نقصان اُٹھا چکے ہیں۔فیض حمید کی رخصتی نے صحیح معنیٰ میں عمران خان کو بے سائبان کر دیا ہے، بلکہ باجوہ صاحب کے ہوتے بھی عمران خان کو ایک خاص نوع کا تحفظ حاصل تھا، کیوں کہ اپنا مارے بھی تو چھائوں میں ڈالتا ہے، وہ معاملہ اب نہیں ہے، ادارے کے بالائی طبقے میں اب عمران خان کے لاڈ اٹھانے والا کوئی نہیں رہا جس کا ثبوت آنے والے بے مہر دن فراہم کریں گے۔وہ افسران جن کی تبدیلی کا مطالبہ عمران خان کرتے رہے ہیں ،وہ کہیں جاتے نظر نہیں آتے، عدالتیں بھی اب شاید خان صاحب کے لئے آئین کو از سرِ نو تحریر کرنے سے گریز کریں، ایسے میں عمران خان کو وہی کرنا چاہئے جو وہ کہہ رہے ہیں، یعنی اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر فوری عام انتخابات کے انعقاد کی کوشش، مگراس منصوبے میں ایک ہی رکاوٹ ہے، پرویز الہٰی، جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ وہ اس کرسی سے اٹھ گئے تو پھر کوئی ’جادو کی چھڑی‘ ہی دوبارہ انہیں اس کرسی پر بٹھا سکتی ہے۔