سود کے خاتمے کا عزم

December 02, 2022

بدھ کے روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کراچی میں ’’حرمت سود سیمینار‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ برسوں میں ملک سے سود کا خاتمہ ممکن ہے اورحکومت اس باب میں سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ حرمت سود سیمینار کا اہتمام مرکز الاقتصاد الاسلامی جامعہ دارالعلوم کراچی اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے زیراہتمام فیڈریشن ہائوس میں کیا گیاتھا ۔اس موقع پر حکومت، علمائے کرام اور تاجر برادری اس امر پر متفق نظر آئے کہ ملک میں سود سے پاک اسلامی نظام حقیقی روح کے ساتھ جلد رائج و نافذ ہونا چاہئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قبل ازیں 9نومبر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے اس بڑے فیصلے کا اعلان کیا تھا کہ سود کے خلاف وفاقی شریعت عدالت نے جو فیصلہ دیا تھا، اس پر سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لے لی جائیں گی۔ بدھ 30نومبر کو منعقدہ ’’حرمت سود سیمینار‘‘میں انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں نے اپنی دائر کردہ اپیلیں واپس لے لی ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ غیر رسمی سودی نظام بھیانک ہے جس سے غریب شدید متاثر ہوتے ہیں، اسے ختم کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ کے بموجب اس وقت ملک میں اسلامی بینکاری 20سے 21فیصد ہو چکی ہے اور اسلامی بینکنگ کے اثاثے 7 ٹریلین روپےکی سطح پر ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق اسلامی بینکنگ کی پراڈکٹس کو سستا کرنا ہوگا، میوچل فنڈز اور انشورنس کو اسلامی بنیادوں پر لانا ہوگا اور اسلامی بینکوں کو کنونشنل بینکوں سے زیادہ کارکردگی دکھانا ہوگی۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک نے اعلیٰ سطح کا ورکنگ گروپ فعال کر دیا ہے جبکہ سکوک کے متبادل پر بھی کام کر رہے ہیں۔ سیمینار میں مفتی محمد تقی عثمانی کی پیش کردہ پانچ قرار دادیں منظور کی گئیں جن میں سے ایک میں تجویز کیا گیا کہ غیر سودی نظام کے قیام کے لئے وزارت خزانہ میں فوری طور پر ایک مستقل ڈویژن اور اس کے تحت موثر ٹاسک فورس قائم کی جائے۔ علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کی گفتگو میں اس امر پر زور دیا گیا کہ عدالت سود کے معاملے کو ایک ہفتے میں نمٹائے، حکومت واضح روڈ میپ دے اور بلاسود بینکاری عملاً لاگو کی جائے۔ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمٰن، مولانا عبدالغفور حیدری، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، علامہ مرید حسین نقوی، رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی، عاقب سعید، سعید اسکندر، مولانا حنیف جالندھری، مولانا عبدالمالک اور دیگر مقررین کی فکر انگیز گفتگو سے موضوع کے مختلف پہلو نمایاں ہوئے۔ جبکہ یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ امت کے اجتماعی مسائل پر تمام مکاتب فکر کے مشترکہ فورم کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ ایسے وقت کہ بلاسود بینکاری متعدد ممالک میں متعارف ہو چکی ہے اور تیزی سے مقبول ہو رہی ہے وطن عزیز میں اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں مشکلات نہیں ہونی چاہئیں۔ مذکورہ سیمینار کی ایک اہم خصوصیت غیر سرکاری سطح پر اس کا اہتمام ہے۔امریکہ سمیت کئی ممالک نے غیر سرکاری سطح پر کام کرنے والے تھنک ٹینکس مختلف امور پر تحقیق اور غور و خوض کے بعد منصوبوں، تجاویز اور آئیڈیاز کی صورت میں حکومتوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی کئی غیر سرکاری حلقے یا ادارے عملی و فکری خدمات انجام دے رہے ہیں جن کے مزید بڑھنے کی راہ ہموار رہے تو معاشرے کو ترقی کی راہ پر لیجانا زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔ عملی تجربات، تحقیقی جائزےاور تجاویز اگر سیمینارز تک محدود نہ رہیں اور سرکاری حکمت عملیوں کی تشکیل کے وقت سے استفادہ کیاجائے تو زیادہ مثبت نتائج حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔