حکمرانوں کی بے عملی

December 02, 2022

ہمارے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں، ہماری معیشت کی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، گرداب میں ہچکولے کھا رہی ہے اور ہم صرف سوچ رہے ہیں، سراب ہمارے سامنے ہے اور ہم اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم 60ء کی دہائی میں سب سے آگے تھے، 90ء تک بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے تھے، آج پیچھے کیوں ہیں، وجوہات کیا ہیں؟ وجوہات کا پتہ چل بھی جائے تو علاج نہیں کرتے۔چند روز پہلے طاہر خلیق نے کچھ دوستوں کو جمع کیا اورجہاں طاہر حمید، سہیل وڑائچ اور حیدر کھرل کی موجودگی میں سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات کہنے لگے ...’’عملی سیاست میں مجھے 45 برس ہوگئے مگر مجھے یہ بات دُکھ کے ساتھ کرنا پڑ رہی ہے کہ ہم ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہوئے ہیں، میں 1977ء میں پارلیمان کا حصہ بنا، 1988ء میں پہلی مرتبہ وفاقی وزیر بنا، میرے پاس تین بڑی وزارتیں تھیں، اس کے بعد میں کئی مرتبہ وفاقی وزیر رہا ہوں، میرے تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ جس طرح کے قابل سیکرٹری 1988ء میں تھے وہ 2012ء میں نہیں تھے یعنی قابلیت اور اہلیت کا معیار پہلے سے کہیں گر چکا تھا‘ جب میں اپنے ارد گرد دوسرے شعبوں کو دیکھتا ہوں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ہم سیاست اور اخلاقیات میں بھی تنزلی کی طرف گئے ہیں...‘‘

پاکستانی معاشرے کا یہ ’’چہرہ‘‘ ایک ایسے پاکستانی سیاست دان نے پیش کیا ہے جو دیہات اور شہروں کے علاوہ مختلف شعبوں اور ایوانوں سے بخوبی واقف ہے، جسے یہ معلوم ہے کہ جابر حکمرانوں کے سامنے کھڑا ہونے کی سزا کیا ہوتی ہے؟ مخدوم فیصل صالح حیات کی باتوں پر غور کیا جائے تو بہت کچھ سمجھنے میں دشواری کہیں بھی نہیں رہتی کیونکہ معاشرے کی سچی تصویر یہی ہے۔ چالیس برس پہلے نجی تعلیمی اداروں کی بہتات نہیں تھی، علاج بھی سرکاری میسر تھا، مافیاز کا راج نہیں تھا، ہائوسنگ سوسائٹیوں والے اقتدار کے بدلنے میں کردار ادا نہیں کرتے تھے، چالیس برس پہلے انصاف کا بھی یہ حشر نہیں تھا، اب تو لمحوں میں مجرم کو پاک صاف بنا دیا جاتا ہے، چالیس برس پہلے ایوانوں میں کرپشن پر تنقید کرنے والے موجود تھے، آج کے ایوانوں میں کرپشن کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی جارہی ہے، پچاس کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کی ہو تو اسے کرپشن تصور ہی نہیں کیا جارہا، اور جو پچاس کروڑ سے اوپر کی ہے، اسے بھی ثابت کرنا سرکاری اہلکاروں کے لئے محال بنا دیا گیا ہے کیونکہ انہیں سزائوں اور جرمانوں سے ڈرا دیا گیا ہے۔ چالیس برس پہلے جو رشوت لیتا تھا لوگ اس سے تعلقات توڑ لیتے تھے، لوگ ناجائز دولت کمانے والوں سے رشتے داریاں نہیں کرتے تھے مگر آج ہر طرف دولت کی دیوی کی پوجا ہو رہی ہے، سیاست بھی دولت کا کھیل بن کے رہ گئی ہے۔ جہاں نظریات کی جگہ دولت آ جائے وہاں معاشرہ زوال پذیر نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا، چالیس برسوں پر محیط حکومتوں نے لوٹ مار کو اتنا پروموٹ کیا کہ یہ لوٹ مار اداروں میں اتر آئی، اب جس کے پاس جتنی طاقت ہے وہ اسی حساب سے لوٹ مار کرتا ہے۔ اس لوٹ مار نے ملکی ادارے برباد کردیے، ادارے وہ نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے بلکہ اب تو ذاتی خواہشات کی بھینٹ اداروں کی توقیر چڑھائی جاتی ہے۔ چالیس برس میں پورا نظام برباد ہوگیا، اب اس نظام کودھکے سے چلانے کی کوشش ہو رہی ہے مگر یہ نظام چل نہیں رہا، لوگ اس نظام سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں اور حیرت انگیز طورپر نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نفرت کو اب جبر کے ذریعے کم کرنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے حالانکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کوشش محبت سے کی جائے کیونکہ جبر کے ذریعے اگرنفرت ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو نفرت دشمنی میں بدل جاتی ہے اور دشمنی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس چالیس سالہ دور میں حکمرانوں نے ملکی معیشت سے وہ کھلواڑ کیا کہ ایسی بربادیوں کا کھیل تو فاتحین بھی نہیں رچاتے۔ ہم اگرملک کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر چند خاندانوں کی محبت سے نکل کر پاکستان سے محبت کرنا ہوگی، ہمیں پاکستانی عوام سے محبت کرنا ہوگی، ہمیں لوگوں کے فیصلوں کا احترام کرنا ہوگا، ہمیں نظام بدلنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے جو ادارے کرپشن کی روک تھام کیلئے بنائے تھے ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد نے کرپشن میں اضافہ کیا، وہ اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ افسوس صد افسوس کہ یہاں کچھ لوگ یہ فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ ترقی کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی اضافہ ہوتا ہے، یہاں لوگ کرپشن کو غلط کہنے کی بجائے کرپشن کے حق میں دلائل گھڑتے ہیں، ہمیں ایسے لوگوں کو روکنا ہوگا، چوری کی حمایت کرنے والوں کی نفی کرنا ہوگی۔

اس وقت پاکستان کی معاشی تصویر بڑی بھیانک ہے، ہم تصویر درست کرنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ یہ سوچ رہے ہیں کہ فلاں ملک ہماری مدد کر دے گا، آخر کب تک دوسروں کے سہارے جینے کی کوشش کی جائے گی؟ ترقی، خوشحالی اور عزت کے لئے ہمیں خود عمل کرنا پڑے گا۔ ہماری انڈسٹری بند ہے اور ہم بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، ہماری زرعی پیداوار پڑوسیوں سے کہیں کم ہے اور ہمارے حکمراں بڑھکیں مار رہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اگرزراعت، صنعت، سیاحت اور معدنیات پر توجہ دیتے تو ہماری یہ حالت نہ ہوتی مگر حالت بدلنے کے لئے سوچنا نہیں عمل کرناپڑتا ہے۔ جن ملکوں نے ترقی کی ہے عمل کے ذریعے کی ہے۔ ہمارے ہاں شخصیات مافیاز کا حصہ بن کر دولت کے کھیل میں شامل ہو جاتی ہیں، ملک کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ ناصرہ زبیری کے دو اشعار یاد آ رہے ہیں کہ ؎

منزل تمام عمر مرے سامنے رہی

اک راستے نے مجھ کو گزرنے نہیں دیا

جس سرزمیں کے حسن پہ نازاں رہے سبھی

اس سرزمین کا حسن سنورنے نہیں دیا