بہاول پور کے پھول

December 04, 2022

اظہر فراغ کی دعوت پر بہاول پور جانے کااتفاق ہوا جہاں ایک خوبصورت مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بہت ہی بھرپور مشاعرہ تھا۔ مشاعرے کی کامیابی کا تعلق شاعروں سے زیادہ سامعین سے ہوتا ہے ۔اگر شعر کو سمجھنے والے سامعین میسر آ جائیں تو مشاعرہ یاد رہ جانے والے مشاعروں میں بدل جاتا ہے ۔ بہاول پور کا یہ مشاعرہ بھی کچھ ایسا تھا ۔ اہل بہاول پور کی شعر فہمی کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی ۔مشاعرہ کی صدارت ڈاکٹر جاوید اقبال نےکی ۔میں نے ان کے کئی خوبصورت لیکچر سن رکھے تھے مگر یہ پہلی بار معلوم ہوا کہ وہ شاعربھی ہیں ۔انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں اچھے شعر سنائے ۔ شاکر شجاع آبادی بھی آئے ہوئے تھے ۔خرم آفاق نے بھی بہت اچھی غزلیں سنائیں ۔سخن پور ادبی تنظیم کے زیر اہتمام ہونے والا مشاعرہ واقعتاً یہ بات ثابت کرنے کیلئے کافی تھاکہ بہاول پور سچ مچ ’’سخن پور ‘‘ ہے ۔اسد تسکین اور احمد سعید مشاعرے کے روح رواں تھے ۔ خود انہوں نے بھی یاد رہ جانے والے اشعار سنائے ۔

میں صبح صبح لاہور سے نکلا اور اپنے دوست جواد اکرم کے پاس پہنچ گیا۔ جواد اکرم آج کل سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو (سائوتھ) ہیں،بڑے با ذوق افسر ہیں جس زمانے میں وہ ڈی سی وہاڑی تھے انہوں نے وہاں بڑے شاندار مشاعرے کرائے تھے ۔مشاعرہ میں ایک غریب شاعر احمد نواز سے ملاقات ہوئی ۔اس بیچارے کو مشاعرہ نہیں پڑھایا گیا تھا یا اس نے خود نہیں پڑھا تھا۔ میں مشاعرہ کے دوران یونہی تھوڑی دیرکیلئے اٹھ کر پنڈال سے باہر نکلا تواس نے مجھے پکڑ لیا اورکہنے لگا کہ یہاں جو کمشنر ہے اس نے بے گھر بوڑھوں کے لئے اولڈ ہوم بنایا ہے انہیں کہیں مجھے بھی اس میںرکھ لیں ۔ میں نے کہا کہ اگر واقعی بہاول پورمیں کوئی اولڈ ہوم بن چکا ہے تو سمجھ لو تمہیں اس میں رہائش مل گئی ۔ میں نے رات جواد اکرم کی رہائش گاہ پر گزاری ، قریب ہی کمشنر ہائوس تھا ۔صبح صبح اٹھ کر وہاں پہنچ گیا ۔راجہ صاحب کے ساتھ ناشتہ کیا اور رات والا واقعہ سنایا۔یعنی احمد نواز کی سفارش کی ۔ راجہ صاحب کی گفتگو سے پتہ چلا کہ بہاول پور میں ان کا زیادہ تر مقصد یہی رہا ہے کہ غریب لوگوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر کیاجائے ۔

اردو ادب کےلئے راجہ جہانگیر انور کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ادارہ مجلس ترقی ادب جس کا میں سربراہ ہوں اس کی نئی بلڈنگ کی تعمیر راجہ جہانگیر انور کی ادب دلچسپی کے سبب ہی ممکن ہوئی۔اگرچہ بہاولپورمیں میں نے صرف ایک دن گزارامگر وہ اتنابھرپور دن تھا کہ قدم قدم یادگار بنا رہا ۔بہاول پور ایک پرسکون سی ریاست ہے ۔اگرچہ قانونی طور پر تو ریاست کی حیثیت ختم ہوئے برسوں بیت گئے ہیں مگر اب بھی بہاول پور اپنے مزاج میں ایک الگ ریاست محسوس ہوتاہے ۔جنوبی پنجاب صوبہ کے سیکرٹریٹ کا آدھا حصہ ملتان میں ہے اور آدھا بہاولپور میں ۔ میرے نزدیک وہ سارے کا سارا بہاول پور منتقل ہو جانا چاہئے ۔ ویسے یہ بات عجیب و غریب ہے کہ ایک صوبہ کاسیکرٹریٹ آدھا ایک شہر میں ہے اور آدھا دوسرے شہر میں۔

جہاں تک جنوبی پنجاب صوبے کے نام کا تعلق ہے تو یہ بھی غلط ہے ۔اگر پنجاب کی تقسیم ہونی ہے اور سرائیکی بولنے والوں کا علیحدہ صوبہ بنانا ہے تو پھر یہ کوئی بات نہیں کہ اسے پنجاب ہی کہا جائے ۔ اس کا کوئی بھی نام رکھا جائے مگر وہ اس علاقہ کے مطابق ہو۔ جنوبی پنجاب صوبہ اسی طرح کا نام ہے جیسے صوبہ خیبر پختون خوا کا نام کسی زمانے میں صوبہ سرحد ہوا کرتا تھا صوبہ سرحد بھلا کیا نام ہوا مگر وہاں باسیوں کو یہ نام تبدیل کرانے کیلئے بڑی محنت کرنا پڑی ۔ویسے ہی ایک اور غلطی یہ نام رکھ کر کی جارہی ہے ۔دریائے سندھ کےدونوں کناروں پرآباد علاقے کو پنجاب اس لئے بھی کہنا مناسب نہیں کیونکہ پنجاب پانچ دریائوں کی سرزمین ہے ۔بیاس ، راوی ، ستلج ، جہلم اور چناب ۔اس میں دریائے سندھ شامل نہیں مگر اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اصل بات زبان کی ہے جب یہ تسلیم کرلیا گیا ہے سرکاری طور کہ ان علاقوں میں بولی جانے والی زبان پنجابی نہیں سرائیکی ہے تو اس صوبہ کا نام بھی اس زبان کی مناسبت سے رکھا جانا چاہئے ۔اس صوبے کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں نے بہت سیاست کی ۔پی ٹی آئی کے دور ِ حکومت میں اتنا ہوا کہ انتظامی سطح پر اسے الگ صوبہ قرار دے دیا گیا مگر ابھی تک معاملہ مکمل نہیں ہوا۔کسی زمانے میں پیپلز پارٹی سرائیکی صوبہ کی بڑی حامی ہوا کرتی تھی مگر اپنے دور اقتدار میں اس پارٹی نے اس صوبے کےلئے کچھ نہ کیا۔ اب اس علاقہ میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ عمران خان کے علاوہ سرائیکی صوبے کا قیام بھی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی دو تہائی کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو عمران خان فوری طور پر سرائیکی صوبہ بنوا دیں گے ۔ بے شک پنجاب کی تقسیم پاکستان کیلئے ایک بہتر کام ہے ۔اس سے نہ صرف صوبوں کے درمیان توازن پیدا ہو گا بلکہ اور بھی بہت ہی اچھی باتیں سامنے آئیں گی ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہوگی کہ اس علاقے کی پسماندگی ختم ہو گی ۔ پنجاب کا بجٹ جو زیادہ تر لاہور اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں خرچ ہو جاتا ہے ۔اس بجٹ کا آدھا حصہ اس علاقہ پر خرچ ہوگا ۔ میری معلومات کے مطابق سیکرٹریٹ تو بن چکا ہے مگر ابھی تک حقیقی طور پر پوری پاورز اس کو منتقل نہیں کی گئیں ۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔