آہ بیگم نجمہ حمید

December 06, 2022

نجمہ حمید زندہ دل تھیں مگر دل زندگی کو کب تک سہارا دے سکتا ہے بالآخر موت کی دستک پر لبیک کہنا پڑتا ہے ۔انسان کر بھی کیا سکتا ہے اسے موت کی وادی میں اترنا ہی ہوتا ہے مگر بعض انسان زندگی کو رونقیں بخشتے ہوئے زندگیوں پر نقش ہو جاتے ہیں، یہی نقش ناموری ہے، ناموری ہی شہرت ہے، شہرت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔اس لحاظ سے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ نجمہ حمید نصیب والی تھیں، قسمت ان پر مہربان رہی اور وہ خود خوش اخلاق مہربان تھیں، ان سے ہمیشہ مشرق کی سچی روایات کی خوشبو آتی رہی انہوں نے ہر موسم میں اپنے روایتی انداز کو برقرار رکھا، خود کو نت نئے فیشنوں سے محفوظ رکھا، پورا پنجاب پوری مسلم لیگ ن انہیں نجمہ آپا کے طور پر جانتی تھی ۔

راقم کے بیگم نجمہ حمید سے ذاتی مراسم تھے، برسوں کا ساتھ رہا ۔کئی یادیں ہیں یادوں میں لپٹے واقعات ہیں واقعات کی پوری لڑی ہے ، مشکل یہ ہے کہ کہاں سے شروع کروں، کہانی تو بچپن سے موت تک ہی ہوتی ہے سو بچپن ہی سے شروع کرتا ہوں ۔

نجمہ حمیداٹھارہ مارچ 1944ء کو ملتان شہر میں سید محمد شاہ کےگھر پیدا ہوئیں ۔سید محمد شاہ جنوبی پنجاب کے مشہور صنعت کار تھے ان کی جننگ فیکٹریاں تھیں 1947ءسے پہلے سید محمد شاہ ایک انگریز کی فیکٹری میں جنرل منیجر تھے ۔ملتان شہر کا ایک خاص تعلیمی ،روایتی اور روحانی ماحول ہے اس قدیمی شہر میں محمد شاہ کی اولاد زیر تعلیم رہی البتہ سید محمد شاہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو تین مہینے مری شفٹ کر دیا کرتے تھے، یہ بھی اتفاق ہے کہ نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب کی شادی کے بعد کی زندگی راولپنڈی شہر میں بسر ہوئی ورنہ ملتان کےلوگوں کی راولپنڈی میں کم ہی رشتے داریاں ہوں گی۔ دونوں بہنوں کی سیاسی زندگی میں صرف مسلم لیگ رہی، پنڈی شہر ان کی جدوجہد سے بخوبی واقف ہے مگر سچ یہ ہے کہ نجمہ حمید ہی نے اپنی بہن طاہرہ اورنگزیب کو سیاست میں نہ صرف راستہ مہیا کیا بلکہ رہنمائی بھی کی، نجمہ حمید نے ابتدائی سیاسی رہنمائی تو مریم اورنگزیب کی بھی کی ۔ سیاست میں آنے سے پہلے مریم اورنگزیب سماجی خدمت کے ایک غیر ملکی ادارے میں کام کرتی تھیں مگر انہوں نے سیاست میں بھی خوب نام کمایا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مریم اورنگزیب کا ابتدائی تعارف یہی تھا کہ وہ نجمہ حمید کی بھانجی ہیں ۔

بیگم نجمہ حمید 78برس کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ کر اگلے جہاں جا بسی ہیں، انہوں نے بھرپور سیاسی زندگی گزاری ۔اگرچہ انہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی خان اوربیگم وقار النسا نون کے ساتھ بھی کام کیا تھا مگر ان کی زیادہ شہرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے آمرانہ قوتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے بیگم کلثوم نواز کا بھرپور ساتھ دیا، جدوجہد ہمیشہ ناموری دیتی ہے اور جو جدوجہد انکار کے بعد ہو وہ شہرت کو دوام بخشتی ہے۔نجمہ حمید بلدیاتی سیاست میں بہت پہلے آ گئی تھیں مگر صوبائی اور قومی سیاست میں ان کا داخلہ 1985ءمیں ہوا اس کے بعد وہ صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں سماجی بہبود کی صوبائی وزیر بنیں، وفاق میں پارلیمان کا حصہ بنیں ،دو مرتبہ سینیٹر رہیں ان کی بہن طاہرہ اورنگزیب نے بھی سیاست کا آغاز بلدیاتی سیاست ہی سے کیا مگر بھانجی مریم تو براہ راست قومی سیاست میں آئیں۔

میرا اگرچہ نجمہ حمید سے تعلق پرانا تھا مگر میں نے ان کی سیاسی سرگرمیوں کو پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں زیادہ قریب سے دیکھا، ہم آمریت کے مخالف ہونے کے ناطے ایک ساتھ جدوجہد کر رہے تھے، وہ مسلم لیگ ن کے خواتین ونگ پنجاب کی صدرتھیں، عشرت اشرف مرکزی صدر تھیں، نجمہ حمید پنجاب میں احتجاجی سیاست کو اس انداز میں منظم کرتی تھیں کہ حکومت وقت پریشان رہتی ۔اس دور میں بیگم کلثوم نواز اکثر نجمہ حمید اور عشرت اشرف کے ہاں آتی تھیں جبکہ تہمینہ دولتانہ سیاسی جدوجہد میں بیگم کلثوم نواز کے ساتھ پیش پیش رہیں۔آمریت کے خلاف جدوجہد کے ان مراحل میں بیگم کلثوم نواز سے ہماری اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں بلکہ ایک روز بیگم کلثوم نواز بتانے لگیں کہ ان کی خالہ یا پھوپھی کا گھر پنڈی میں تھا اور وہ بچپن میں نالہ لئی میں بہہ گئی تھیں پھر انہیں پکڑ کر بچالیا گیا تھا۔ خیر جدوجہد کی کہانی کے بعد جب پرویز مشرف کا اقتدار ختم ہو چکاتھا تو ایک روز بیگم کلثوم نواز چند خواتین کےساتھ تھیں ،ان سے ملاقات ہوئی انہوں نے رائیونڈ نہ آنے کا شکوہ کیا تو ان سے عرض کیا کہ میاں صاحب نے مشرف کے ساتھیوں کو گلے لگا لیا ہے اور یہ صرف سیاست دان ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو مشرف کے گیت گاتے تھے سو اس لئے یہ مناسب نہیں کہ میں ایسے لوگوں میں شامل ہو جائوں جو ہر عہد میں شامل ہوتے ہیں، راستوں کی جدائی کا بڑا سبب یہی ہے اس مرحلے پر بھی نجمہ حمید کہنے لگیں کہ ہمارا آپ کا تعلق ختم نہیں ہو سکتا ۔

نجمہ حمید کے تینوں بیٹے زبردست ہیں ،میں ان سب کو بلکہ نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب کو نک نیم سے بلاتا ہوں ۔نجمہ حمید کے شوہر حمید صاحب سے بھی دلچسپ اور زبردست ملاقاتیں رہیں مگر سچ یہ ہے کہ جو رونق نجمہ حمید سے تھی وہ کسی اور سے کہاں؟بقول جون ایلیا؎

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں