ڈکٹیشن اور قومی مفاد

December 06, 2022

اگلے روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا ایک انٹر ویو میں کہنا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے کسی بھی قسم کی کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے اور یہ کہ وہ قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں گے، اگر آئی ایم ایف ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے تو ہم ملکی معیشت کو سنبھال لیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی نہیں سنیں گے تو معیشت کو سنبھالنے کے لئے اربوں ڈالر کہاں سے لائیں گے کیونکہ محض دو سے تین ارب ڈالر کےلئے ہم دوست ممالک کی منتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمیں ادھار پر بھی وہاں سے کوئی طویل المدتی قرض نہیں ملتا بلکہ ڈپازٹس ملتے رہتے ہیں جن میں آئے روز توسیع کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے۔رواں مالی سال کے لئے ملک کی مالی ضروریات تیس ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ اگر معاشی سمت میں اب بھی مشکل فیصلے نہ کئے گئے تو آنے والے برسوں میں اس رقم کے ساتھ ساتھ قرض میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا کیونکہ ہمیں پرانا قرض چکانے کے لئے نیا قرض لینا پڑتا ہے۔

کسی بھی ملک کے لئے قرض لینا کوئی معیوب عمل نہیں کیونکہ زیادہ تر ترقیاتی کام قرض لے کر ہی کئے جاتے ہیں۔ اور کچھ ممالک تو ایسے ہیں جو اپنے جی ڈی پی سے بھی کئی گنا قرض لے چکے ہیں مثلاً جاپان اپنے جی ڈی پی سے 266 فیصد سے زائد قرض لے چکا ہے۔ امریکہ کا بھی مجموعی قرضہ کھربوں ڈالر میں ہے اور وہ اب بھی اربوں ڈالر سالانہ قرضہ لیتا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ کی ملکی معیشت اتنی مستحکم ہو کہ نہ صرف وہ قرض بروقت لوٹا سکے بلکہ عالمی ادارے بھی آپ کو بخوشی قرض فراہم کریں۔ہمارے ہاں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قرضوں کا ایک بڑا حصہ غیر پیداواری منصوبوں میں لگا دیا جاتا ہے جس سے نہ تو ملک کی برآمدات میں کوئی اضافہ ممکن ہو پاتا ہے اور نہ ہی ملک میں کوئی سرمایہ کاری آتی ہے۔ یعنی یہاں حکومتیں صرف اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئےقرضے لیتی ہیں۔ قرضوں میں اضافے کی ایک وجہ وہ حکومتی ادارے بھی ہیں جو مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں مثلاً قومی ایئر لائن اور بجلی کی کمپنیاں۔

سن 2000ء سے پہلے بھی پاکستان دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیتا رہا ہے بلکہ پاکستان کا شمار شاید اُن ممالک میں ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بار آئی ایم ایف کے پاس جا چکے ہیں۔ اُس وقت مگر ملکی برآمدات اور درآمدات میں زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی بہت کم تھا ، یہی وجہ ہے کہ تھوڑے بہت قرض سے ہی ملکی نظام چل جانا تھا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران مگر ہماری تینوں حکومتیں اور ریاستی ادارے اپنی چادر دیکھے بغیر پائوں پھیلاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے آج ملک قرضوں کے بے تحاشا بوجھ تلے دب چکا ہے۔

ہم نے معاشی ترقی کی بھی ایک خود ساختہ تاریخ ایجاد کر رکھی ہے۔ وہ تمام چیزیں جو در حقیقت معاشی تباہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ہم اُنہیں معاشی ترقی سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ درآمدی غذائی اجناس، درآمدی گاڑیاں، درآمدی اشیائے تعیش اور وہ غیر ملکی برانڈز جہاں پاکستان کے عوام قیمتی ڈالرز اپنی شاہ خرچیوں میں اڑا دیتے ہیں۔ ڈالر کی قدر کم ہونا بھی ہم ملکی معیشت کے لئے اچھا سمجھتے ہیں جبکہ ایسا ہونے سے ملکی برآمدات کو نقصان پہنچتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ کا چین کے حوالے سے موقف یہ تھا کہ چین نے جان بوجھ کر ڈالر کے مقابلے میں یوآن کی قدر کم رکھی ہوئی ہے تاکہ اُس کی مصنوعات عالمی منڈی میں ڈالر کے مقابلے میں سستے داموں دستیاب ہو سکیں۔ ہمارے ہاں لیکن اُلٹا حساب ہے۔ جو قیمتی ڈالرز اور زرِ مبادلہ ہمارےپاس موجود تھا اُسے صنعتی ترقی اور ملکی برآمدات میں اضافے کے لئے خرچ کیاجانا چاہئے تھا، یہاں کاروبار کو آسان بنانا چاہئے تھا، یہاں کاروباری افراد اور فری لانسرز کے لئے نئے مواقع پیدا کئے جانے چاہئیں تھے لیکن اس کے برعکس یہاں اُن کے لئے بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ یہاں صرف اُن روایتی کاروباروں کے لئے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں جن سے ہماری اشرافیہ کے مفاد ات وابستہ ہیں جبکہ نئے آئیڈیاز اور چھوٹے کاروباری افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے۔

آج ہمارے لئےآئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ شاید اب ہم اپنے جغرافیہ کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے لئےوہ حیثیت نہیں رکھتے جیسی ماضی میں رکھتے تھے، ہم عالمی طاقتوں کی ویسی مجبوری نہیں رہے، جیسے ماضی میں تھے۔ اسحاق ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا رویہ ہمارے ساتھ غیر معمولی ہے جبکہ کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایف ایم کا رویہ پہلے غیر معمولی تھا جبکہ اب وہ معمول کا رویہ اختیارکئے ہوئے ہے۔جب تک ریاستی سطح پر ایک جامع معاشی حکمت عملی نہیں بنائی جائے گی اور جب تک تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اُس پر کاربند نہیں ہوں گی تب تک ہم قرض کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے اور آج نہیں تو کل ڈیفالٹ کی طرف چلے جائیں گے۔ کیونکہ ہماری معیشت جس ڈگر پر چل رہی ہے وہاں تاحال بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

اب معیشت کو سنبھالنے کے لئے جو ہنگامی اقدام کئے جا رہے ہیں وہ بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درست سمت میں نہیں ہیں۔ ایل سیز بند ہونے کے وجہ سے درآمدت کا سلسلہ رُکا ہوا ہے۔ جہاں اور بے شمار درآمدی مال پاکستان نہیں پہنچ پا رہا وہیں ادویات کا خام مال جو درآمد کرنا پڑتا ہے وہ بھی کم پڑتا جا رہا ہے۔ اگر یہ صورتحال طوالت اختیار کرتی ہے تو عنقریب ملک میں ادویات کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں اس وقت بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ ڈار صاحب مفتاح اسماعیل کی جگہ تو لے چکے ہیں، جن کی اپنی جماعت کے اراکین نے ہی اُنہیں تنقید کا نشانہ بنائے رکھا تھا، مفتاح اسماعیل کی بہت سی باتیں مگر بالکل درست تھیں۔ اُنہوں نے اپنی معاشی پالیسیوں کی بہت بڑی سیاسی قیمت چکائی ہے ملک کے لئے،مگر اب مفت کی عیاشی کا وقت ختم ہو گیا ہے اور معیشت قومی بقا کا مسئلہ بن چکی ہے۔ سری لنکا کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے جو ڈیفالٹ کرنے کے بعد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، پاکستان مگر آبادی کے لحاظ سے سری لنکا سے کہیں بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا کر رہا ہے، ایسے میں اگر ملک ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو اس کی بہت بڑی قیمت عوام کو چکانا پڑے گی۔ بے شک قومی مفادمیں آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانیں مگر پھر یہ تعین بھی ضرور کر لیں کہ حقیقی قومی مفاد ہے کیا اور اُس کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)