ہزاربادہ مبرکہ بہ پایاں رسید کارِ مغاں

December 07, 2022

بعض حلقے اِس حُسن ظن کا اظہار کررہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کے بعد شایداُن ایوبی بدعتوں کاخاتمہ ہوسکے جنکی وجہ سے آج تک سو ل قیادت وجرنیل ملکی ترقی وفلاح کیلئےوہ اشتراک عمل نہ لاسکے جو دیگر جمہوری ممالک کا خاصہ و پہچان ہے ۔نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیروزیراعظم کو بھیجی گئی فہرست میں سب سے سینئر تھے ،اس حوالے سے ایک عرصے بعد میرٹ پر انتخاب کی عمدہ مثال سامنے آئی۔ نئے آرمی چیف زیرو سے آغاز کررہے ہیں ۔سابق فوجی سربراہوں کے نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ پسندیدہ اور ناپسندیدہ ہردو نوع کے تعلقات رہے۔ امید یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اُن جمہوریت کش روایتوں کاخاتمہ ہوسکے گا جن کے خالق ایوب خان تھے۔جنرل ضیاالحق کی بطورآرمی چیف تقرری بھی مضحکہ خیز انداز میں ہوئی تھی۔ الطاف حسن قریشی اپنی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں لکھتے ہیں”جنرل ضیاالحق کہتے ہیں کہ فروری 1972کو بھٹو نے مجھے بلایااور کہا کہ میں نے تمہیں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں بہت جونیئر ہوں۔ اس پر انھوں نے ایک ایک سینئر افسر کا تجزیہ شروع کیا کہ وہ ایسا اور وہ ایسا۔ انھوں نے کہا میرا فیصلہ قطعی ہے تمہاری گفتگو کے بعد مجھے یقین ہو چلا ہے کہ میرا انتخاب بالکل صحیح ہے“ پاکستان کی جمہوری تاریخ کبھی قابل رشک نہیں رہی، قیام پاکستان کے بعد ایوب خان پہلے مسلمان فوجی سربراہ تھے جو 9 جون 1958ء کو ریٹائر ہو رہے تھے لیکن اس وقت کے صدرا سکندر مرزا نے انہیں مزید دو سال تک عہدے کی توسیع دےکرایک بدعت کی بنیاد رکھ دی۔ برطانیہ کے جانے کے بعد جنرل ڈگلس گریسی کے بعد سنیارٹی کے اعتبار سے جنرل افتخار خان کو ہی نوزائیدہ پاکستان کا پہلا مقامی سربراہ بننا تھا لیکن وہ ایک اعلیٰ عسکری کورس میں شرکت کے لئے انگلستان جاتے ہوئے 13 دسمبر 1949 کو ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ یوں جب جنر ل ڈگلس گریسی ریٹائر ہوئے تو ایوب خان کو اگلے دن فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کرفوج کی سربراہی سونپ دی گئی۔اگرچہ نئے ملک میں سنیارٹی کے اعتبار سے میجر جنرل اکبر خان سب سے تجربہ کار افسر تھے لیکن سامراجی آلہ کار جنرل ڈگلس گریسی ،اکبر خان سےخوش نہیں تھے چنانچہ قیادت کا ہما ایوب خان کے سر پر بیٹھنے کے بعد وہ ملک کےسیاہ و سفید کے مالک بن گئے ۔ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک خود ساختہ سازش پکڑی گئی تھی جسے ’’راولپنڈی سازش کیس‘‘ کا نام دیا گیا تھا، اس بغاوت کے سرغنہ ایک فوجی افسر میجر جنرل اکبر خان بتائے گئے تھے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں قتل کر دیے گئے اور ان کے قاتل کو موقع پر ہی ماردیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بڑا سیاسی قتل تھاجس کےاصل ذمہ داروں کااب تک سراغ نہیں ملا۔1953ء میں آرمی چیف جنرل ایوب خان امریکی فوجی امداد کے حصول کے لئے دورہ امریکہ پر گئے تھے۔ واپسی پر انہیں پاکستان کا وزیر دفاع بھی بنا دیا گیاتھا جو ایک اچھوتا واقعہ تھا کہ جب ایک حاضر سروس فوجی جنرل کو ایک سویلین عہدہ تفویض کیا گیا تھا۔ یہ عہد ہ ان کے پاس اگلے بارہ برس تک رہا تھا۔1954ء میں’’ون یونٹ‘‘ کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کو بے اثر کرنے کے لئے مغربی پاکستا ن کے صوبے ختم کر کے ایک صوبہ بنا دیا گیا اور پیریٹی کا اصول ،تاکہ دونوں صوبوں کی نمائندگی برابر رہے۔ 1954ء میں سیٹو میں اور 1955ء میں سینٹودونوں میں پاکستان کی شمولیت ملکی مفادکیخلاف تھی ۔7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے ملک گیر مارشل لالگاکر آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نامزد کر دیا جنہوں نے اسی ماہ انہیں چلتا کیا اورخود صدر بھی بن بیٹھے۔ایوب خان کو امریکہ کو اڈے دینےکے سبب اربوں ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد ملی تھی ،یہ ملک میں کرپشن کی بد ترین مثال تھی۔ملک کے ساتھ اس طرح کے کھلواڑ ہوتے رہے ہیں ۔ میرٹ پر تعیناتی کے بعد خداکرے کہ ملک کو ایک ایسی سمت مل سکے کہ عوامی دکھوں کا مداوا ہوسکے ، خداکرے کہ ہماراحُسن ظن سلامت رہے ۔ اگرچہ حضرت اقبال کہہ گئے ہیں۔ گمان مبر کہ بہ پایاں رسید کارِ مغاں۔ہزار بادہ ناخواندہ درِ رگ تاک است ۔ یہ مت سمجھو کہ موغاں ہزار بادہ کا کام ختم ہوگیا ہے،انگور کی رگوں میں ایک ہزار ناپیدا ہوائیں ہیں!!