امریکی جج نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کیخلاف خاشقجی قتل کیس خارج کردیا

December 07, 2022

فائل فوٹو

امریکا کے جج نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف جمال خاشقجی قتل کیس خارج کردیا۔

امریکی جج کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کو خاشقجی کیس میں قابل بھروسہ الزامات کے باوجود استثنیٰ حاصل ہے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج جان بیٹس نے کہا ہے کہ میرے ہاتھ بائیڈن انتظامیہ کی حالیہ سفارشات کے باعث بندھے ہوئے ہیں۔

برطانوی میڈیا کے مطابقجمال خاشقجی کیس خارج کیے جانے کے بعد سعودی ولی عہد اب آزادانہ امریکا جاسکیں گے۔

رپورٹس کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس کو ان کی منگیتر نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

امریکا کا سعودی ولی عہد پر الزام

ماضی میں امریکا کی مرکزی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے یقین ظاہر کیا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حکم دیا۔

جمال خاشقجی کا قتل

یاد رہے کہامریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2018ء میں ترکیے میں واقع سعودی سفارتخانے میں قتل کردیا گیا تھا۔

اس وقت سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج کے مطابق 2 اکتوبر 2018 کو جمال خاشقجی استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے کے اندر داخل ہوئے تھے لیکن اس کے بعد واپس نہیں آئے۔

جمال خاشقجی سعودی حکومت کے بڑے ناقد تصور کیے جاتے تھے اور ان کے یکدم غائب ہو جانے کے بعد سعودی حکومت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے امریکی جریدے کے لیے کام کرنے والے صحافی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔

جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پر غم و غصہ سامنے آیا تھا جس کی وجہ سے سعودی ولی عہد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک کا کوئی دورہ نہیں کیا۔

خاشقجی قتل کیس میں 5 کو سزائے موت، 2 کو عمر قید

2019 میں سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت اور دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنا ئی تھی۔

عدالت نے سعودی حکومت کے دو اعلیٰ مشیروں سمیت 3افراد کو خاشقجی کے قتل کے الزام سے بری بھی کیا ۔ سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر اور کنسلٹنٹ سعود القحطانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قتل کی مکمل منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بری کردیا گیا تھا۔