2023ء کیلئے دنیا کی معتبر ترین جامعات

December 18, 2022

علم کی ’جیو۔پالیٹکس‘ بدل رہی ہے۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی جانب سے دنیا کی 100بہترین جامعات کی درجہ بندی رپورٹ سے ایک نئے اُبھرتے ہوئے رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے: دنیا کی 100بہترین جامعات کی فہرست میں امریکا کا حصہ کم ہورہا ہے، جب کہ مشرق ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی یونیورسٹیز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 2018ء کی درجہ بندی میں دنیا کی 100بہترین یونیورسٹیز میں مرکزی چین کی صرف 2جامعات شامل تھیں، جب کہ 2023ء کی درجہ بندی میں چین کا حصہ بڑھ کر 7 ہوگیا ہے۔ مزید برآں، اس فہرست میں ہانگ کانگ کی بھی 5جامعات جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں، جب کہ 2018ء کی فہرست میں ہانگ کانگ کی صرف 2 جامعات شامل تھیں۔

جنوبی کوریا نے بھی اس فہرست میں اپنی پوزیشن کو بہتر کرلیا ہے۔ 2018ء کی فہرست میں اس کی 2یونیورسٹیز کی شمولیت کے برعکس 2023ء کی فہرست میں اس کی 3جامعات جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ اسی طرح سنگاپور اور جاپان کی بھی دو، دو جامعات دنیا کی 100بہترین یونیورسٹیز میں شامل ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تعلیم اور اختراع میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں شامل ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی تیزی سے دنیا کی بہترین جامعات میں جگہ بنارہی ہے اور گزشتہ سال 190ویں پوزیشن کے مقابلے میں اس سال 101ویں درجے پر فائز ہے۔

صرف یہی نہیں، اس سال سعودی عرب اس فہرست میں سب سے زیادہ تیزی سے اوپر آنے والا ملک بن گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی 6 یونیورسٹیز بین الاقوامی طور پر جانی مانی جامعات میں شامل ہیں۔ ان میں سے 5جامعات نے اس سال اپنی درجہ بندی کو مزید بہتر بنایا ہے جن میں یونائیٹڈ عرب ایمرٹس یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف شارجہ سب سے آگے ہیں اور یہ دونوںٹاپ 300یونیورسٹیز میں شامل ہوچکی ہیں۔

’عالمی علمی معیشت‘ بدل رہی ہے

ٹائمز ہائر ایجوکیشن (THE) کی عالمی درجہ بندی عالمی جدت اور علمی معیشت میں تبدیلیوں کا ایک قریب سے دیکھا جانے والا پیمانہ بن گیا ہے، جو حکومتوں کی پالیسی سازی اور یونیورسٹی سربراہان کے اسٹریٹجک فیصلوں کی تائید کرتا ہے، اور ساتھ ہی یہ فیصلہ کرنے میں لاکھوں بین الاقوامی طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی مستقبل کے لیے کن جامعات پر اعتماد کرسکتے ہیں۔

عالمی یونیورسٹی کی درجہ بندی، کارکردگی کے13 پیمانوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جو بین الاقوامی سطح پر مرکوز تحقیقی یونیورسٹیوں کے بنیادی اہداف (تدریس، تحقیق، علم کی منتقلی اور بین الاقوامی نقطہ نظر) کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔

درجہ بندی کا طریقہ کار

ٹائمز ہائر ایجوکیشن انڈیکس مجموعی طور پر دنیا بھر کی 1800جامعات کی کارکردگی کو جانچتا ہے۔ درجہ بندی انڈیکس میں متعلقہ جامعہ کی ٹیچنگ (سیکھنے سکھانے کا ماحول) کو 30فی صد وزن حاصل ہے جس میں ریپوٹیشن سروے (15فی صد)، فی طالب علم اسٹاف کی شرح (4.5فی صد)، ڈاکٹریٹ ٹو بیچلرز کی شرح (2.25فی صد)، پڑھانے والے اسٹاف کو ڈاکٹریٹ ایوارڈ کرنے کی شرح (6فی صد) اور بین الااقوامی آمدنی (2.25فی صد) شامل ہے۔

ریسرچ (حجم، آمدنی، اور ریپیوٹیشن) کو 30فی صد وزن حاصل ہوتا ہے، جس میں ریپوٹیشن سروے 18فی صد، ریسرچ انکم 6فی صد اور ریسرچ پراڈکٹیویٹی 6فی صد شامل ہے۔ بین الاقوامی جرنلز اور ریسرچ میں سائٹیشن (ریسرچ انفلوئنس) کو 30فی صد، انٹرنیشنل آؤٹ لک (اسٹاف، طلبہ اور ریسرچ) کو 7.5 فی صد وزن دیا جاتا ہے جس میں بین الاقوامی طلبہ کی شرح، انٹرنیشنل اسٹاف کی شرح اور بین الاقوامی اشتراک میں سے ہر ایک کو 2.5فی صد وزن حاصل ہے۔ ایک اور پیمانہ انڈسٹری انکم (نالج ٹرانسفر) ہے اور اسے بھی 2.5فی صد وزن حاصل ہے۔

ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی جانب سے رواں سال کے لیے شامل کیا جانے والا اکیڈمک ریپوٹیشن سروے نومبر 2021ء تا مارچ 2022ء کے درمیان کیا گیا تھا۔ سروے بین الاقوامی سطح پر طلبہ اور اساتذہ کے 40 ہزار جوابات کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔ مزید برآں، سروے 2023ء ایڈیشن 15.5ملین ریسرچ اشاعتوں اور ان تحقیقی اشاعتوں میں سے 112ملین سائٹیشنز کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہے۔

نیک نامی رکھنے والی جامعات

برطانیہ کی یونیورسٹی آف آکسفورڈ نے مسلسل ساتویں سال اپنی نمبروَن رینکنگ کو برقرار رکھا۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف ہارورڈ کا نمبر ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج (گزشتہ سال پانچواں درجہ) اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی (گزشتہ سال چوتھا درجہ) کو مشترکہ طور پر تیسرے درجے پر رکھا گیا ہے۔

میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی پانچویں درجے پر فائز ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی آف شکاگو اس سال ٹاپ10 میں اپنی جگہ برقرار نہ رکھ پائی اور 13ویں نمبر پر آگئی۔ اس کی جگہ برطانیہ کا ایمپیریل کالج لندن گزشتہ سال 12ویں درجہ کے مقابلے میں 10ویں نمبر پر آگیا ہے۔

ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی نئی درجہ بندی کے بعد کیا امریکا اور مغربی اتحادیوں کو پریشان ہونا چاہیے کہ تعلیم و تحقیق کے میدان میں عالمی نقشہ پر نئے مراکز اُبھر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر سائمن مارجن سن کہتے ہیں، ’’اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ مطلق معنوں میں امریکی تحقیق کمزور ہو رہی ہے۔ یہ ابھی بھی دنیا کا سب سے بہترین اور معتبر ترین نظام ہے‘‘۔