فوجی ڈکٹیٹر شپ اور فاشزم میں فرق

January 02, 2023

پاکستان اس وقت خوفناک فاشزم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جو اس کے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ کیونکہ تاریخ ِ عالم یہ بتاتی ہے کہ فاشزم کی کامیابی اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کی تباہی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی ، انتشار اور جھوٹ پر مبنی معاشرے کی تقسیم در تقسیم پر منتج ہوتی ہے۔ عام طور پر فاشزم کی اصطلاح کو فوجی ڈکٹیٹر شپ سمیت ہر قسم کی آمریت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو سائنسی لحاظ سے غلط ہے۔ مشہور سیاسی مفکّرلیون ٹراٹسکی اپنی کتاب ’’ فاشزم کیا ہے اور اس سے کیسے لڑا جائے؟‘‘ میں فاشزم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ کہ’’ جب کسی معاشرے میں حقیقی عوام دوست طاقتیں کمزور پڑ جاتی ہیں تو مذہب ، خطے ، زبان اور قومیت کے نام پر انتہا پسند افراد عوامی ہمدردیاں حاصل کر لیتے ہیں اور ووٹ کے ذریعے اقتدار میںآکر ایک ایسی آمریت قائم کر دیتے ہیں جو اپنی ہر مخالف قوت کو ریاستی اختیار اور عوامی حمایت سے نیست و نابود کر دیتی ہے۔ یہ آہستہ آہستہ ریاست کے ہر ادارے کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کر دیتی ہیں، جس سے معاشرہ جمہوری اختلافِ رائے کی بجائے ،جھوٹ ، منافقت اور ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر تقسیم ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کی کلاسیکل مثالیں ہٹلر کا نازی جرمنی اور مسولینی کا فاشسٹ اٹلی ہے ۔ ہٹلر اور مسولینی دونوں انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے لیکن اپنے آمرانہ اور فسطائی طرزِ عمل سے انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو چن چن کر ختم کردیا۔ انہوں نے احتساب اور قومیت پرستی کے نام پر نوجوان نسل کو اس قدر گمراہ کردیا کہ بیسویں صدی میں برتر جرمن اور آرین قومیت کو دنیا میںبہترین قومیں قرار دے کر انہیں یہ باور کرایا کہ صرف وہی قومیں دنیا پر حکومت کرنے کی حقدار ہیں۔ یہ تنگ نظر قومیت پرستی اس وقت پوری دنیا کے لئے خطرہ بن گئی، جب ہٹلر نے دیگر یورپی اقوام پر حملہ کرکے دوسری عالمی جنگ کاآغاز کردیا۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار کرنے کیلئے ہٹلر کے وزیرِ پروپیگنڈہ گو ئبلزنے جھوٹ بولو اور اس تکرار سے بولو کہ وہ سچ دکھائی دینے لگے کے فسطائی اصول کو جنم دیا۔ یوں پوری جرمن قوم جھوٹے پروپیگنڈہ کے سحر میں گرفتار ہو گئی ۔ اور ایک دوسرے کے علاوہ دیگر اقوام ِ عالم کی جانی دشمن بن گئی جو بالآخر جرمنی کی تباہی ، شکست اور تقسیم کا باعث بن گئی۔ گویا فاشزم کو آسان لفظوں میں’’جمہوری آمریت‘‘قرار دیا جا سکتا ہے۔ جبکہ فوجی آمریت محض بندوق کی طاقت پر قائم کی جاتی ہے۔ جس میں عوام کی نظر یاتی و سیاسی حمایت شامل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمریت عوام اور معاشرے کو اس طرح تقسیم نہیں کرتی جس طرح فاشزم کرتا ہے۔ پاکستان نے آج تک فوجی آمریت کا سامنا کیا ہے۔ چونکہ فوجی آمریت کو وسیع پیمانے پر عوام کی سیاسی حمایت حاصل نہیں رہتی اس لئے اس سے چھٹکارہ پانا ممکن ہوتا ہے جیسا کہ ہم اپنی سیاسی تاریخ میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں بار بار فوجی آمریت قائم ہوئی مگر اسے جلد یا بدیر ہر بار عوام نے مسترد کردیا اگرچہ فاشزم سے کم خطرناک ہونے کے باوجود فوجی آمریت نے پاکستان کو دولخت کردیا اور ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دیا تو سوچئے کہ اگر فاشزم ایک مرتبہ کسی معاشرے میں اپنے پنجے گاڑ لے تو وہ کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یوں تو ہر سیاسی لیڈر میں زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کے لئے فاشزم کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم آج کے سیاستدانوں کے قول و فعل پر نظر ڈالیں توعمران خان اس میں سرِ فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ان کی سیاست میں جھوٹی الزام تراشی ، اپنے ہی موقف کی بار بار نفی یعنی یو ٹرن ، سیاسی مخالفین کو صفحہ ء ہستی سے مٹادینے کی خواہش ، مذہبی بلیک میلنگ اور کردار و گفتار کا دوغلا پن سب سے زیادہ نظر آتا ہے جس کی مثالیں ان کے دورِ حکومت میں اپوزیشن کے تمام سرکرہ لیڈروں کی کرپشن کے جھوٹے مقدمات میں گرفتار یوں اور انتقامی کارروائیوں سے بخوبی واضح دکھائی دیتی ہیں اس کا ثبوت سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کا وہ تہلکہ خیز انٹرویو ہے ۔ جو انہوں نے عمران خان کے دورِ حکومت میں دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے انہیں کئی سیاستدانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرنے کا حکم دیا اور جب انہوں نے یہ غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کیا تو وہ ان کے سخت مخالف ہوگئے۔ اسی طرح موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے بھی عمران خان سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا جس میں انہوں نے جنرل ندیم انجم سے پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ معیشت ہے مگر عمران خان نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت نہیں اپوزیشن کے سیاسی رہنما ہیں۔ جو شخص ایسے خیالات رکھتا ہو اس سے عوامی حقوق اور جمہوریت کے بارے میںکیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اگر پاکستانی عوام نے فاشزم کے اس بڑھتے ہوئے خطرے کو اپنی سیاسی طاقت سے نہ روکا تو ڈر ہے کہ پاکستان کی سالمیت کسی بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتی ہے۔