آغا شاہی اور بھٹو کی سفارت کاری!

January 05, 2023

اوائل عمر سے ہی اس درویش کو انٹرنیشنل ریلیشنز یا افئیر ز سے دلچسپی رہی ہے، اسی اپروچ کے زیر اثر عالمی تہذیبوں کی ترقی و ارتقا اور مذاہب عالم کے تقابلی جائزے میں اسکا خصوصی میلان رہا ہے۔تاہم ان ایشوز پر سچائی کے ساتھ منصفانہ اظہار خیال کیلئے جو آزاد وبےلاگ ماحول یا فضا درکار ہوتی ہے، افسوس ہمارے ہاں اسکا شدید فقدان ہے۔ ناچیز کا یہ ماننا ہے کہ جو سوسائٹی جتنی زیادہ راسخ العقیدہ ہوگی، اس میں اسی شرح سے سماجی گھٹن ہوگی۔ حریت فکر اور آزادی اظہار پر یہاں قدغنوں نے اس بدنصیب کو زندگی بھر اذیت میں مبتلا رکھا اور وہ سوائے کڑھنے کے کچھ نہ کرسکا۔

بات ہورہی تھی فارن افئیر میں اپنی دلچسپی کی جو دوسری طرف نکل گئی۔ شخصیات یا نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک محقق یا تجزیہ کار کو کبھی اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے، اوصاف حمیدہ یا خوبیوں کے بیان میں اگر قدم تھوڑاآگے چلا جائے تو کسی حد تک معافی کی گنجائش ہوتی ہے لیکن تنقید کا نشتر چلاتے ہوئے اتنی احتیاط کرنی چاہئے کہ آپ کی زبان یا نوکِ قلم بال برابر بھی ناجائز کاٹ نہ کرپائے، اعلیٰ تہذیبی اخلاقیات و انصاف کا یہی فطری و بدیہی تقاضا ہے۔

پچھلے دنوں ہمارے نئے فارن سیکریٹری ڈاکٹر اسد مجید خاں کے حوالے سے ناچیز کا ایک کالم جنگ میں چھپا جس کے آخر میں ایک لائن ہمارے سابق سیکرٹری امور خارجہ جناب آغا شاہی کے حوالے سے کچھ اس طرح تھی:’’دعا ہے کہ وہ جناب آغا شاہی جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کی طر ح فارن آفس میں یاد رکھے جانے والے نقوش چھوڑ کر جائیں‘‘۔ناچیز کیلئے آغا شاہی کوئی رول ماڈل یا آئیڈیل شخصیت نہ کبھی تھے اور نہ ہیں البتہ ہمارے فارن آفس میں ان کی جو اہمیت رہی ، یو این میں پاکستان کے مستقبل مندوب سے لے کر فارن سیکریٹری اور پھر فارن منسٹر کی حیثیت سے ان کا بہر حال طویل کیرئیر ہے ۔ہم اس کا جائزہ آخر میں پیش کرتے ہیں پہلے اپنے دانشور لیفٹسٹ دوست جناب لیاقت علی ایڈوکیٹ کی تنقیدی پوسٹ ملاحظہ ہو جس نے کئی دیگر نام نہاد دانشوروں کو بھی اپنا غبار نکالنے کا موقع دے دیا۔

’’افضال ریحان نےاپنا زیر بحث کالم چند روز قبل مقرر ہونے والے پاکستان کی وزارت خارجہ کے 31ویں سیکرٹری ڈاکٹر اسد مجید خان پر لکھاہے۔ افضال ریحان اور ڈاکٹر اسد لا کالج میں ہم جماعت رہے اور زمانہ طالب علمی کے دوران ان دونوں کے مابین جو روابط قائم ہوئے تھے انھیں یہ آج تک خوش اسلوبی سے نبھارہے ہیں۔افضال ریحان کا یہ کالم دراصل ڈاکڑ اسد مجید کا شخصی خاکہ ہے جوان کے دوست نے لکھا اورجس میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے مثبت پہلووں کواجاگر کیاہے۔

بات اگر ڈاکٹر اسد مجید تک رہتی تو کوئی بات نہیں تھی کیونکہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کےبارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے لیکن افضال ریحان نے اپنے کالم کے آخری پیرا گراف میں دعا کی ہے کہ ڈاکٹر اسد مجید خان اپنے ایک پیش رو سیکرٹری وزارت خارجہ آغا شاہی جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کی طرح فارن آفس میں اپنے نقوش چھوڑ جائیں۔ آغا شاہی نے فارن آفس اور پاکستان کی فارن پالیسی کے حوالےسے ایسے کون سے نقوش چھوڑے ہیں جن کی بابت افضال ریحان اس قدر خوش فہمی کا شکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے عزیز دوست ڈاکڑ اسد مجید خان بھی وہ کچھ کریں جو آغا شاہی نے دوران ملازمت کیا تھا۔

آغا شاہی کا تعلق بنگلور (کرناٹک) سے تھا۔ انھوں نے فزکس اور میتھ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے کیریر کا آغاز ٹیچنگ سے کیا تھا لیکن جلد ہی وہ مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے انڈین سول سروس میں شامل ہوگئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ غلام حسین ہدایت اللہ اور ایوب کھوڑو کے سیکریٹری کے طورپرکام کرتے رہے ۔بعد ازاں 1951میں وہ فارن سروس کا حصہ بن گئے۔ پاکستان کے امریکی بلاک کا حصہ بننے اور سیٹو سینٹو جیسے فوجی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کیلئے ہونے والے مذاکرات کے مختلف مراحل میں وہ شامل رہے۔ (جاری ہے )