جمہوریت، انتخابات کیلئے باچا خان کا مجاہدہ

January 20, 2023

انتخابات کاانعقاد تو قیام پاکستان تاامروزبہت مشکل سے ہوتاآیاہے، وجہ ظاہر ہے یہی رہی کہ جمہوریت پنپنے نہ پائےلیکن اس کیلئے جنگِ آزادی کے سالار خان عبدالغفار خان ،جن کی آج 35ویں برسی منائی جارہی ہے، نےجمہوریت کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جدوجہدکا آغاز کردیا تھا، آپ درویش صفت انسان تھے، کھدر کا معمولی لباس جو زیب تن رہتا، خود دھوتے، دورانِ سفر مختصر پوٹلی خود اُٹھاتے، عمر بھر ایسی غذا پر گزر بسر کی جو عام لوگوں کو میسر ہوتی ہے، اپنے علاقے اشنغر کے بڑے خان تھے لیکن خود کو مٹا دینے کی یہ ادا قوم کو ایسی پسند آئی کہ انہیں باچا خان کا خطاب دیا اور ایک صدی گزرنے پربھی عوام کے دلوں میں آپ کیلئے احترام ہے۔ آپ کی زندگی اور جدوجہد نے خطے کی ہم عصر آبادی کو اپنی جانب متوجہ رکھا۔ کوئی راہ نما کسی ایک یا دوسرے دور کو متاثر کرتا ہے، پھر پہلی سی شدت و تمازت باقی نہیں رہتی لیکن پراپیگنڈے کی طلسم کاریوں کے باوجود حقیقت کا روئے زیبا جیسے پہلے تھا، اب بھی ہے۔ 35برس جیل، 15سال جلاوطنی، انگریز مخالف مارچ کے دوران پسلیوں کا ٹوٹ جانا، جائیداد وں کی نیلامی ، کانگریس کی صدارت نہ لینا،پھر مولاناآزاد کا صدربن جانا، اپنے صوبے میں جانے پر ایسی پابندی کہ ولی خان اورمحترمہ نسیم ولی اٹک آتے ہیں اور باچا خان خود ہی نکاح پڑھا کر بیٹے و بہو کوپشاور رخصت کر دیتے ہیں۔ اہلیہ بیت المقدس، بیٹے پاکستان اور خود افغانستان میںمدفون ہیں۔دو سپرطاقتوں، برطانیہ و امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا درد سربننے والے ایک درویش کی صرف ان چند جھلکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کسی اور رزم و بزم سے ایسی کوئی مثال لائی جا سکتی ہے؟ فرنگی اعتراف کرتا ہے ’’1930تک وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے، روس پسپا ہوا، کابل میں خاموشی چھا گئی اور سرحدوں پر امن قائم ہو گیا، ایسے میں ایک شخص عبدالغفار خان اٹھا اور پھر ہر طرف شورش و بے چینی پھیل گئی‘‘ (خفیہ دستاویزات شمالی مغربی سرحد صفحہ30) یہاں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ پھر ایسی عہد ساز شخصیت پاکستان میں متنازع کیوں رہی ؟ درحقیقت باچا خان سےوہی عناصر خائف تھے جوپاکستان کو لوٹ کا مال بنانا چاہتے تھے اور بنایا بھی ،یہ عناصر وہی فارمولا بروئے کار لائے جو انگریز کا آزمودہ تھا۔وائسرائے ہند لارڈ ارون نے 16اگست 1930کو وزیر ہند ویج ووڈ کو ایک مکتوب لکھا ’’خدائی خدمتگار تحریک کیلئے سرخ پوش نام انتظامیہ دانستہ استعمال کر رہی ہے تاکہ اس کا تعلق اشتراکیت سے جوڑا جائے،اور اس تاثر کو تقویت نہ ملے کہ یہ تنظیم نیک مقصد کیلئے قائم ہوئی ہے‘‘، (خفیہ دستاویزات انڈیا آفس لائبریری) یعنی جس طرح انگریز سرکار نے سرخ پوش کہہ کر اس تحریک کو اشتراکیت سے جوڑنے کی کوشش کی، اسی طرح پاکستان میں باچا خان کو پاکستان مخالف قراردینے کیلئے بھارت نواز ظاہر کرنے کی سازشیں بروئے کار لائی گئیں۔ باچا خان نے قوم کے بچوں کیلئے تعلیمی اداروں کے قیام کیلئے جدوجہد شروع کی تھی اور پختونوں کی باہمی عداوتوں کے خاتمے کی خاطر فلسفہ عدم تشدد متعارف کروایا ۔ اس سلسلے میںآپ نے اُس دور میں جب ذرائع نقل وحمل ناپید تھے، تین سال میں پختونخواکے تمام 500 بندوبستی دیہات کا دورہ کیا۔ باچا خان نے دوسری قید 1921تا 1924بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی خاطر ہی کاٹی، سید بہادر شاہ ظفر کاکا خیل ’’پختون تاریخ کے آئینے میں ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ باچا خان کے اسکولوں نے قوم کی ایک بنیادی اور بڑی ضرورت کو پورا کر دیا تھا۔آپ نے جہاں جہالت، تشدد، غلط رسوم و رواج کے خلاف شمعیں روشن رکھیں وہاں عوام میں جاگیردارانہ سماج کے خلاف عظیم تحریک بپا کی، یہ بھی تاریخ ہے کہ برصغیر میں ووٹ کے حق کی خاطر چلائی جانے والی تحریک میں خدائی خدمت گار تحریک ہی سب سے آگے تھی، ایک مثال دیتے ہیں، 1937کے انتخابات کا معرکہ آیا تو مسلم لیگ نے خان بہادر میدان میں اتاردیےجو سب کے سب ہار گئے، چار سدہ کے ایک خان بہادر جو امیدوار تھے، انہیں بتایا گیا کہ خوشیکی نوشہرہ میں گڈریا ہے جس کے پاس بہت ووٹ ہیں چنانچہ اشنغر کے بڑے خانوں کا ایک وفد وہاں پہنچا۔ گڈریا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خان کہاں کسی غریب کے گھر پر آتے ہیں، یہاں تو پورا قافلہ آیاہے،جب خوانین ووٹ کیلئے منت سماجت کرنے لگے،تو گڈریا بے اختیار ناچتے ہوئے کہنے لگا کہ باچا خان کہا کرتے تھے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب بڑے بڑے خان تمہارے گھروں کے چکر لگائیں گے! یہ ووٹ تو باچا خان کا ہے جس نے ہمیں اس کا حقدار بنایا۔ 1946کے انتخابات میں ان زرداروں کا حشر ناقابلِ بیان تھا۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب قیام پاکستان کے بعد اقتدار انگریز کے پروردہ ایسے ہی عناصر کے ہاتھ آیا تووہ باچا خان کو عوام سے دور رکھنے کی خاطر کیا کیا ہتھکنڈے نہ بروئے کار لائے ہوں گے؟تاریخ کا سچ یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر حکمرانوں نے اپنی مخالفت کو پاکستان کی مخالفت باور کراتے ہوئے باچا خان کو علیحدگی پسند کہا اورباچا خان کو عوام سے دور رکھنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا لیکن وہ تادم ِ مرگ اس مردِ قلندر کے عزم و استقلال کو شکست نہ دے سکے ۔ حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے ۔’’ایک عمرسنائیں تو حکایت نہ ہوپوری ..... دوروز میں ہم پہ جویہاں بیت گئی ہے‘‘