جہاں مہنگائی پر کرسی چھوڑ بھی دیتے ہیں

January 22, 2023

آج اتوار ہے۔ بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے، دوپہر کا کھاناکھانے، ان کے سوالات، لطیفے،نئے الفاظ سننے کا دن، مگر ہم میاں بیوی آج ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آج اُردو کے مقبول مزاح نگار ایس ایم معین قریشی مرحوم کے ہاں پایوں کی سالانہ دعوت ہے۔ ا ن کے صاحبزادے فہیم قریشی اپنے عظیم والد کی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

آج کی دنیا کی سب سے حسین،سب سے مہربان، جہاں بھر میں اور اپنے وطن نیوزی لینڈ میں مقبول ترین وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے اچانک اس اعلیٰ ترین عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ نیوزی لینڈ سے کینیڈا تک کے ان کے مدّاح چونک کر رہ گئے ہیں۔ خاص طور پر پاکستانی تو بہت ہی حیرت زدہ ہیں کہ آج کے دَور میں بھی ایسے حکمران ہیں، جو کرسی سے چپکے رہنے کی بجائے اسے چھوڑنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں جب کہ وہ اپنے کارناموں کی وجہ سے اپنے لوگوں کے بھی محبوب ہیں۔ اور کراں تاکراں دوسرے ملکوں میں بھی اپنے حسن، اپنی مسکراہٹ اوراپنی مہربان حکمرانی کی وجہ سے مثال بنی ہوئی ہیں۔ 19جنوری 2023عالمی سیاسی تاریخ میں ایسا فیصلہ کن دن شُمار کیا جائے گا۔ 1980میں ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والی جسینڈا نے بہت تیزی سے زندگی کے سارے دُشوار مرحلے طے کئے۔ باپ روس پولیس آفیسر اور ماں لارا ایک اسکول میں باورچیو گائوں کی سادہ زندگی۔ اس مشکل زندگی والے ماحول نے جسینڈا کی پرورش کی۔ اس مجسمے کو تراشا۔ خوبصورت ہی نہیں خوب سیرت بھی بنایا۔ اپنے ہم نفسوں کا خیال بچپن سے ہی ان کی شخصیت کا حصّہ بنتا رہا۔ ویکاٹو یونیورسٹی سے سیاسیاتو تعلقاتِ عامہ اور روابط میں ڈگری لی اور لیبرپارٹی کی ہم نوا بن گئیں۔ وہ صرف17سال کی تھیں کہ وزیر اعظم کے لئے باقاعدہ سیاسی کام کرنے لگ گئیں اور2006میں لندن میں یو کے کیبنٹ آفس میں مصروف کار تھیں کہ 2008میں وطن واپسی ہوئی اور پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہوئیں۔

ہمارے ہاں اسمبلی ممبر بننے کے لئے ان مراحل اور مدارج کو طے نہیں کرنا پڑتا۔ آبائی انتخابی حلقہ بندیاں اسٹیبلشمنٹ کی مہربان نظر اور قومی خزانے سے لوٹی ہوئی فراواں دولت بہت ہے۔ سیاسیات ، تعلقات عامہ، تاریخ، نفسیات، فلسفہ، سماجیات کسی بھی تعلیم کی ضرورت نہیں۔ کچھ پڑھا بھی ہو تو ہمارے سیاسی منظر نامے میں وہ کام نہیں آتا۔ اس تعلیم اور تدریس کو کسی اسٹور روم میں رکھنا ہوتا ہے۔

پاکستان اور اسلامی دنیا میں جسینڈا آرڈن کو اس وقت بے حساب عزت اور دلداری نصیب ہوئی جب 15مارچ 2019 کی خونی دوپہر ایک متعصب جنونی نے کرائسٹ چرچ کی مسجد میں فائرنگ سے 51نماری شہید کردیے تو وزیر اعظم جسینڈاآرڈن نے اپنی مہربان اور غمگساری سے پوری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے دل جیت لئے، وہ شہدا کے گھروں میں گئیں۔ ان کی مائوں کو گلے لگایا اور اس بہیمانہ واقعے پر معذرت کی۔ تیزی سے مطلوبہ اقدامات کئے۔ ان کی چھ سالہ وزارتِ عظمیٰ کے دَور کے یہ چار کارناموں میں سے ایک ہے۔

کووڈ کو تو جسینڈا صفر تک لے گئی تھیں۔ لیکن کووڈ سے بچنے کے لئے سخت اقدامات سے نیوزی لینڈ کی معیشت متاثر ہوئی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے لگی تھیں۔ مہنگائی سے نیوزی لینڈ والے پریشان ہورہے تھے۔ جسینڈا محسوس کررہی تھیں کہ ان کے ہم وطن اب انہیں کچھ کچھ نا پسند کرنے لگے ہیں۔ اب مسند چھوڑنے کا وقت آگیا ہے۔ وہاں کوئی ریلیاں نکلیں نہ وڈیو لیک ہوئیں اور نہ ہی آڈیوز، نہ غداری کے سر ٹیفکیٹ بانٹے گئے۔

جسینڈا کہہ رہی ہیں،’’ میں اس لئے مستعفی نہیں ہورہی کہ پارٹی الیکشن نہیں جیت سکتی۔ اگلا الیکشن بھی ہم ہی جیتیں گے لیکن اب نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تازہ دم کندھوں کی ضرورت ہے۔ میں نیوزی لینڈ کی سربراہی اس یقین کے ساتھ چھوڑ رہی ہوں کہ آپ مہربان لیکن طاقت ور، ہمدرد لیکن فیصلہ کن، پُر امید لیکن اپنے فرض پر متوجہ ہوں اور آپ اس قسم کے لیڈر ہوں جسے یہ احساس ہو کہ کب چلے جانا چاہئے۔‘‘ آج لیبر پارٹی اپنے نئے سربراہ کو منتخب کرے گی۔

بہت بڑی نکتے کی بات ، جس کا پاکستان میں قحط ہے، جانا تو پڑتا ہے لیکن ہمارے ہاں اچھے خاصے مقبول حکمران پوری طرح رُسوا ہونے کے بعد ہی کرسی چھوڑتے ہیں۔ مہنگائی ہمارے ہاں نیوزی لینڈ سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈالر روپے کو روند رہا ہے۔یہاں کرسی چھوڑنے کی بجائے اس سے چپکے رہنے کے جواز تلاش کئے جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بالکل عروج کے زمانے میں آرمی ہائوس میں ہی بریگیڈیئر صدیق سالک سے حالات پر گفتگو ہورہی تھی، تو انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا:’’ ہمارے ہاں Sense of Taking Overتو ہے Sense of Handing Over نہیں ہے۔ یہ منتخب حکمرانوں کا بھی المیہ ہے۔ فوجی حکمرانوں کا بھی۔ جسینڈا کہتی ہیں،’’ نیوزی لینڈ کے بہت مشکل اوقات میں ہم نے بہترین اقدامات کئے۔ چیلنجوں کا مقابلہ کامیابی سے اس لئےکرسکے کہ ہمیں پتہ تھا کہ ہم کون ہیں۔ ہمارے پاس ایک لائحہ عمل تھا۔ اب میں نے بہت غور کیا۔ دل سے پوچھا۔ اپنی جسمانی طاقت کا جائزہ لیا۔ اسی نتیجے پرپہنچی کہ مجھے اب حکمرانی نہیں کرنی چاہئےکیوں کہ اس بے دلی اور تذبذب میں حکومت کرتے ہوئے میں نیوزی لینڈ سے انصاف نہیں کرسکوں گی۔ ‘‘ ان کا ایک جملہ پورے میڈیا میں گونج رہا ہے۔ "Not Enough in The Tank"۔ ہمارے ہاںبھی بہت سی پارٹیوں کی طبعی موت ہوچکی ہے۔ لیڈروں کے پلّے کچھ نہیں رہا۔لیکن وہ اپنے عہدے چھوڑنا نہیں چاہتے۔

جسینڈا وزیراعظم تھیں تب بھی دنیا کے لئے مثال بن رہی تھیں۔ اب عہدہ چھوڑتے ہوئے بھی مثال قائم کررہی ہیں۔شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد 37سال کی عمر میں وزیر اعظم بننے والی یہ دوسری کم عمر تھیں۔ اب 42 سال کی عمر میں وہ رPخصت ہورہی ہیں، گھر بسائیں گی، اپنے ہمدم، ہم نفس کو اب ’گھر باپ‘ کے درجے سے ہٹاکر زندگی کا اسٹیئرنگ ان کے حوالے کریں گی۔ بن بیاہی رفاقت ختم کرکے باقاعدہ شادی کریں گی۔ بچے کی ولادت اور حکمرانی ایک ساتھ کرنے کا تجربہ کرچکی ہیں۔

آئیے ہم ایک مہربان حکمران کو محبت اور وقار سے رخصت کریں۔