نظام میں تبدیلی کی گنجائش نہیں

January 26, 2023

سیاست جو کہتی ہے سو کہتی ہے اور جو نہیںکہتی وہ بھی کہتی ہے۔ برصغیر میں کیا کچھ ہو رہا ہے یا ہوتا رہا ہے اس کی ایک جھلک دکھانے کیلئے آپ کو سرحد پار لئے چلتا ہوں۔

جے پرکاش نرائن اپنے علم اور صلاحیت کے اعتبار سے بھارت کے چوٹی کے لیڈروں میں سے تھے۔ ان کوعام طور پر مخلص اور سنجیدہ انسان سمجھا جاتا تھا اور ہر طبقہ کے لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ پٹنہ میں ان کی رہائش تھی، کہتے ہیں ان کے سونے کے کمرے میں دیوار پر یہ شعر لگا ہوا تھا

مالک تیری رضا رہے اور تو ہی تو رہے

باقی نہ میں رہوں نہ میری آرزو رہے

وہ اپنے دل میںسماجی اصلاح کا جذبہ رکھتے تھے اور اپنے الفاظ میں’’مکمل انقلاب‘‘ کے علم بردار تھے۔ انہوںنے سمجھا کہ بھارت کے لوگ ان کا مطلوبہ مکمل انقلاب لانے کیلئے بے قرار ہیں صرف اندرا گاندھی کی حکومت راستے کی رکاوٹ ہے، اندرا حکومت ختم ہو جائے تو اس کے بعدمطلوبہ سماجی نظام نہایت آسانی سے قائم ہو جائے گا۔ ان کو اپنے اس اندازےپر اتنا یقین تھا کہ وہ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کی خاطرفوج اور پولیس کوبغاوت پر ابھارنے کو بھی جائز سمجھنے لگے۔ اندرا گاندھی کی بعض غلطیوں نے ان کوموقع فراہم کیا ا و ر وہ 1977ءمیںاس حکومت کو ختم کرنےمیںشاندار طورپر کامیاب ہوگئے۔ تاہم اس ’’کامیابی‘‘ کے معنی صرف یہ تھے کہ اقتدار اندرا کے ہاتھوں سے نکل کر مرارجی ڈیسائی کے ہاتھوں میںچلاگیا۔ جیسے پاکستان کی 19 سیاسی پارٹیوںکے ہاتھ میں آنے کی بجائے فوج کے ہاتھ میںچلاجاتا ہے۔ جے پرکاش نرائن کیلئے مطلوبہ سماجی نظام کا قیام پھر بھی خیال ہی بنا رہا۔ اقتدارکی تبدیلی کے بعد اگرچہ ذاتی طور پر جے پرکاش کا مقام اتنا بلند ہوا کہ ان کو کئی خطابوں سے نوازا گیا تاہم اپنی تمام تر کامیابی کے باوجود اکتوبر 1979کو وہ دنیا سے اس احساس کے ساتھ چلے گئے کہ ان کا ’’مکمل انقلاب‘‘ اپنی تمام تر دھوم کے باوجود جزوی انقلاب بھی نہ بن سکا۔ مزید یہ کہ جنتا پارٹی میں بہت جلد پھوٹ پڑ گئی اور صرف 28 ماہ بعد جنتا حکومت ٹوٹ گئی، اپنی محبوب جنتا پارٹی کا یہ انجام جب ان کے علم میں آیا تو کہتے ہیں ان کی زبان سے نکلا ’’باغ اجڑ گیا‘‘۔آخر میں وہ اتنے دل شکستہ ہوگئے تھے کہ موت سے ایک دن پہلے ایک دوست نے ان کی خیریت پوچھی تو انہوں نے کہا ’’میں کس طرح جی رہا ہوں ،بس موت کا انتظارکررہا ہوں‘‘۔ جے پرکاش نرائن کا یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں،بلکہ عبرت کاوہ آئینہ ہےجس میں آپ اسی قسم کی بہت سی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک مصلح جب ’’ظالم حکومت‘‘ کو ہٹانے کانعرہ لگاتے ہوئے نظام اقتداراپنے ہاتھ میں لیتا ہے تومشترک دشمنی کاجذبہ بہت سے مختلف الخیال اور بھانت بھانت کے عناصرکواکٹھاکردیتا ہے اس طرح کوئی بھی جماعت یا پارٹی اقلیت میںہونے کے باوجود متحدہ محاذ میں شامل ہوکراکثریت حاصل کر لیتی ہے۔ مگر جب ’’ظالم حکومت‘‘ ہٹجاتی ہے تو سب کا مفاد الگ الگ ہو جاتا ہے اور مصلح اگر طاقتور ہو تووہ متحدہ محاذ کو گھاس نہیں ڈالتا اور لوگ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑنے لگتےہیں۔ اایسا ہی کچھ معاملہ ملک عزیز میںتعمیر ملک و قوم کی کوششوںکا ہوا ہے۔ آدھی صدی سے بھی زیادہ مدت کے پرشور ہنگاموں کے باوجود آج بھی ہمارا قافلہ اسی مقام پر ہےجہاں وہ آدھی صدی پہلے رکا بلکہ شاید کچھ اور پیچھے۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے مصلح یا مسلح لیڈر صبرآزما دور سے گزرنانہیںچاہتے۔ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میںبرصغیر کے مسلمانوں نے سوچاکہ مغربی قوم، جو ہندوستان پر قابض ہو گئی ہے ،سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ انہوںنے سوچا کہ لڑ بھڑ کر کسی طرح اس غیر ملکی اور اجنبی قوم کو نکال دو اور اپنے لئے الگ خطہ زمین حاصل کر لو تو اس کے بعد ہماری عظمت کا دور دوبارہ شروع ہو جائے گا اور اچھے دن آجائیںگے۔ بے شمار جانی و مالی نقصان کے بعد یہ مہم کامیاب ہوگئی مگر ہماری جو مغلوبیت کی حالتپہلے تھے وہی اب بھی ہے۔ پاکستان میں جس جدید دنیا کو پیدا کرنے کیلئے علمی و عملی قیادتوں کی ضرورت تھی ،اس کیلئے ہمارے لیڈروں نے کچھ نہیںکیا۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے سوچا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جو شخصیت یا پارٹی ملک پر حکومت کر رہی ہے اس کے زیر حکومت بہت سی غیر جمہوری روایتیں رائج ہو رہی ہیں۔انہوں نےسمجھا کہ بس اس شخص کواتارپھینکو یا ختم کر ڈالو یااس جماعت سے اقتدارچھین لو تو اس کے بعد ہر طرف جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو جائے گی اور طاقتوروں سے نجات مل جائے گی۔ مختلف اندرونی وبیرونی عناصر کے اشتراک سے یہ مہم کامیاب ہوگئی سب سے بڑے ’’جمہوری نظام‘‘ کو ختم کر دیا گیا مگر اس کے بعدجو دوسرا یاتیسرانظام آیا وہ بھی پہلے ہی کی طرح غیرجمہوری نظام تھااس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کو چلانے والے افراد ہمیشہ اپنے معاشرے اور سماج سے نکل کر آتے ہیں نہ کہ آسمان سے اور جب سماج اور معاشرہ بری طرح بگڑا ہو تو محض کسی فرد یا کسی سیاسی پارٹی کے بدلنے سے نظام نہیں بدل سکتا۔

ہر مصیبت میںجسے میںباخبر کرتا رہا

میری ہر اک بات کو وہ بے اثر کرتا رہا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)