محسن سے محسنِ پنجاب

January 27, 2023

آبائی تعلق جھنگ مگر لاہور میں 1978کوپیدا ہونے والے سید گھرانے کے اس چشم و چراغ سید محسن رضا نقوی کی پرورش ان کے ماموں نے کی، انھوں نے کریسنٹ ماڈل اسکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے گریجویشن کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ میں اوہائیو یونیورسٹی چلے گئے۔امریکہ سے صحافت کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے 2000 میں امریکی نیوز چینل سی این این میں بطور پرڈیوسر شمولیت اختیار کی اور ریجنل ہیڈ ساؤتھ ایشیا‘ بننے کا اعزاز حاصل کیا،دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ ’وار آن ٹیرر‘ کا دور تھا جب نائن الیون حملے کے بعد امریکہ سمیت غیر ملکی افواج نے افغانستان کا رُخ کیا۔انہی دنوں میں محسن نقوی نے تورا بورا (کالی غار)کی لڑائی کی لائیو کوریج کرکے دنیا کو حیران وششدرکر کے رکھ دیا ،یہ لڑائی 6سے 17دسمبر 2001کو مشرقی افغانستان کے تورابورا میں ہوئی جس میں امریکہ اور امریکی اتحادیوں نے حصہ لیا۔ میرے نزدیک سی این این سے منسلک ہونا ہی ان کی سب بڑی کامیابی تھی ۔سیاسی حلقوں میں بھی جانی مانی شخصیت ہیں۔ موصوف مرحوم ایس ایس پی اشرف مارتھ کے داماد، چوہدری پرویز الٰہی کی بھانجی کے شوہر اور چوہدری شجاعت کے بیٹے سالک حسین کے ہم زلف ہیں۔سید محسن رضا نقوی داتا کی نگری لاہور کی خاص یاروں کی خاص محافل کی رونقوں کا ایک خاص چہرہ ہیں ۔ان کی کامیابی کاسب سےبڑابلکہ حقیقی راز یہ ہے کہ وہ کچھ کرنے کی تگ و دو اور جستجو میں رہتےہیں لوگ خاص سوچتے بھی نہیں یہ خاص کر گزرتے ہیں ۔کیونکہ نئے آئیڈیا کے بارے غوروفکر کرنا اور پھر اس پر عمل کر گزرنا کوئی ان سےسیکھے ۔سید محسن رضا نقوی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خیالات وتصورات میں جو کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں ان کو حقیقت کا رنگ دینے کافن جانتے ہیں ۔سید محسن رضا نقوی اپنے آغاز سے ہی جدت پسند خیالات کے مالک تھے اور ہمیشہ مشکل راستوں کے مسافر رہے ہیں ۔ کیونکہ سید محسن رضا نقوی کا اپنا ہمیشہ ایک ویژن رہاہے۔ وہ اپنی جدت وحدت کی بدولت ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے میں کامیاب ٹھہرے ہیں ۔سید محسن رضا نقوی کم لوگوں سے ملتے ہیں لیکن لگاتار ملتے ہیں ۔وہ روزانہ کی بنیاد پرنہیں تو مستقل بنیادوں پر سربراہ لاہور داتا علی ہجویری کے مزار پُرانوارپر حاضری دیتے ہیں ۔

میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میری کتاب ’’حامد میر کہانی‘‘ نومبر 2011میں شائع ہوئی کتاب کی تقریب رونمائی2011میں الحمراء ہال لاہور میں ہوئی اس تقریب میں نقوی صاحب حامد میر صاحب سے دوستی کی بنیاد پر 3گھنٹے شریک رہے ،میری ان کے ساتھ ویسے تو جناب سہیل وڑائچ صاحب کے گھر میں کچھ ملاقاتیں ہوئی ہیں ایک تفصیلی ملاقات میں نے اور کرنل (ر) احمد فضیل صاحب نے نوید چوہدری صاحب کی قیادت وسرپرستی میں ان کے دفتر میں بھی کی تھی ۔ میری ان کے ساتھ محبت کی سب سے بڑی وجہ جناب مجیب الرحمن شامی ،جناب سہیل وڑائچ،حافظ امیر علی اعوان جناب شاہدقادر اورجناب عامر میر صاحب ہیں ۔سید محسن رضا نقوی کو جب دیکھیں سادہ اندازمیں چلتے ہیں ، بزرگوں کی طرح کمرپر ہاتھ باندھ کر چلنا ان کی عاجزی کی علامت ہے ۔

اب آصف علی زرداری کے منہ بولے بیٹے پروہ وقت آگیا ہے کہ اب وہ پنجاب کے فیصلے کریں گے۔ سید محسن رضا نقوی کی زندگی اصولوں اور ضابطوں کے گرد گھومتی ہے ان کی تعیناتی پر جناب سعد رفیق نے بہترین بیان دیا کہ ’جمہوریت پسند بیباک بنیادی حقوق کے داعی آئین و قانون کی سربلندی کے علمبردار سید محسن رضا نقوی نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب مقرر۔ آزادی صحافت کے پرچم کو سربلند رکھنے کےلئے محسن نقوی نے بارہا خندہ پیشانی سے جبر کا سامنا کیا اورجناب سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے بیان میں بھی بھرپوروزن ہے ،کہتے ہیں کہ ’کیسا ملک ہے کہ جہاں نگراں وزیر اعلیٰ بنانا ہو تو پہلے اُس کا مسلک دیکھو یہ جناح کا پاکستان تو نہیں ۔ان کی اہلیہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ سید محسن نقوی کی تین صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ ہے۔ حجاز مقدس کا بار بار سفر کرنا اور دوستوں کو مقدس سفر میں ساتھ لے کر جانا اور رمضان المبارک پر ہزاروں روزہ داروں کی روزانہ کی بنیاد پر روزہ کشائی کرانا ان کی بڑی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔

آخر میں یہ ہی کہوں گا کہ مجھے میرے موکل نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ شاید الیکشن تین ماہ میں نہ ہو سکیں۔ دوسرا یہ نگراں وزیر اعلیٰ سید محسن رضا نقوی سب سے زیادہ کام اور کم پریس کانفرنس کرنے والے ثابت ہوں گے۔ محسن تو پہلے تھے اب محسن پنجاب ہیں کیونکہ انہوں نے کہا کہ سی ایم ہائوس کے کچن میں تیار ہونے والا کھانا میرے گھر سے تیار ہو کر آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)