پٹرولیم نرخوں میں پریشان کن اضافہ

January 31, 2023

معاشی بحران اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے تقاضوں سے مجبور ہو کر حکومت نے بالآخرچاروں پٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول، ڈیزل لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا جو سب سے بڑا اضافہ کیا ہے اس سے پہلے سے موجود کمر توڑ مہنگائی کو نئے پر لگ جائیں گے۔ ٹرانسپورٹروں نے فوری طور پر باربرداری اور مسافروںکے کرایوں میں 5 سو روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے جس سے عام اشیائے خوردنی سمیت تمام چیزوں کے نرخ بڑھنا فطری امر ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی ہر پندرہ روز بعد کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ یہ اضافہ 31جنوری کو متوقع تھا مگر آئی ایم ایف کے وفد کی آمد کی وجہ سے تین روز پہلے ہی اضافے کا اعلان کر دیا گیا جس کا مقصد ادارے سے مذاکرات میں تعطل دور کر کے قرضوں کے نئے پروگرام کی راہ ہموار کرنا بتایا جاتا ہے۔ یہ کڑوی گولی اس لئے نگلنا پڑی کہ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی ہوئی قدر اور آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی جانے والی کڑی شرائط کے تناظر میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے حکومت کو ابھی پٹرولیم کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا جس کا مطلب مزید مہنگائی اور غریب طبقے کے علاوہ متوسط اور بالائی طبقوں کیلئے بھی مزید پریشانی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عوام کیلئے آنے والی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے متنبہ کر دیا ہے کہ ملک جس سنگین معاشی بحران سے دوچار ہےاور عمران خان کی حکومت نے ساڑھے تین سال میں جو معاشی تباہی مچائی ہے وہ چھ ماہ میں ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اس کیلئے بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اتوار کو رات گئے کئے جانے والے اعلان کے مطابق حکومت نے متعلقہ ادارے کی سفارش پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لیٹر یک لخت 35روپے اضافہ کیا ہے جس سے پٹرول کی نئی قیمت 249.80 روپے اور ڈیزل کی 262.80روپے فی لیٹر ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی 18.18روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی کا جو دبائو بڑھے گا وہ اگلے 30مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس کے اثرات ملک میں امن و امان کی صورت حال پر بھی پڑیں گے۔ آئی ایم ایف نے صرف پٹرولیم کے نرخ بڑھانے پر زور نہیں دیا ، عوام کو مزید اربوں روپے کے ٹیکسوں کے زیر بار کرنے اور سرکاری اخراجات کم کرنے کیلئے بھی کہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں جس کا سبب بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں کمی اور عالمی کساد بازاری بھی ہے۔ زرمبادلہ کی کمی کے باعث حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قلت دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جس کا نتیجہ پٹرول پمپوں پر صارفین کی طویل قطاروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ تاجر برادری نے پٹرول کے نرخ بڑھانے پر شدید احتجاج کیا ہے اور اس کے منفی نتائج کی نشاندہی کی ہے جو خالی از علت نہیںہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے سے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی ہو گی جو پٹرول اور ڈیزل کی مصنوعی قلت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اگر یہ درست ہے تو حکومت کی ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں جن کا کام ہی اس طرح کی بدعنوانیاں روکنا ہے ۔ اسباب کچھ بھی ہوں، عام آدمی کے مسائل حل کرنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے ۔ارباب اقتدار کو چاہئے کہ لیپاپوتی کی بجائے عوام کو حقیقی معاشی صورتحال سے آگاہ کرے۔ عوام نے ماضی میں بھی تکالیف اٹھائی ہیں اب بھی اٹھالیں گے مگر حکومتوں کی بدعنوانیوں ، بری کارکردگی اور غلط فیصلوں کے نتائج کا سارا ملبہ عام آدمی پر ہی کیوں ڈالا جائے۔