دہشت و فساد کی نہ ختم ہونے والی حکمت

February 05, 2023

پشاور کی پولیس لائنز میں خود کش دھماکے میں سو سے زیادہ سپاہیوں کی اندوہناک شہادت سے ایک بار پھر مذہبی دہشت گردی کے عفریت نے سر اٹھالیا ہے۔ اسلامی نظریے پہ قائم ایک قومی سلامتی کی ریاست کیلئے اس سے بڑا تازیانہ کیا ہوگا؟ چالیس برس سے جاری جہادی حکمتِ عملی کے ہاتھوں جو تباہی مچی وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ جنرل ضیا الحق سے جنرل باجوہ تک سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس خودکش ریاستی پالیسی کے ناقدین پہ جو گزری وہ ایک علیحدہ داستانِ خونچکاں ہے۔ لیکن کہیں اعتراف جرم اور احساس ندامت کا شائبہ تک نہیں۔ کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے قتل عام کے بعد بھی ان کے قاتلوں کو پھر سے فساد بپا کرنے کیلئے واپس لایا جاسکتا ہے، جس قومی اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا، اُسے فقط تین افراد اُلٹ کر پھر سے طالبان پروجیکٹ کو بحال کرسکتے ہیں؟ کیا سابق وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض سے اس بابت کوئی پوچھ گچھ کرسکتا ہے؟ پوچھ گچھ تو ہائبرڈ نظام کو لانے والوں سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ تو پھر آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کرے گی بھی تو کیا؟ اتنی ہمت بھی نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں فعال کمیں گاہوں کے خاتمے کیلئے افغان طالبان کی اَمارات سے دو ٹوک بات کی جاسکے۔ جن طاقتور حلقوں نے افغان طالبان کی کابل واپسی پر خوب بغلیں بجائی تھیں، وہ کیوں یہ بھول گئے تھے کہ افغان طالبان کی کامیابی پہ تحریک طالبان پاکستان وہی کامیاب حکمت عملی پاکستان میں کیوں نہیں اختیار کرے گی؟ المیہ یہ نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان آگ اور خون کے کھیل کو پھر سے ہمارے قبائلی علاقوں میں لے آئی ہے بلکہ یہ ہے کہ ان کے اس خونی کھیل میں ریاست نے سہولت کاری فراہم کی اور جو پشتون نوجوان اور عوام امن کا پھر یرا لے کر نکلے، اُن کی زندگیاں مخدوش تر بنادی گئیں ۔ پورے پختونخوا میں امن کیلئے آواز بلند کرنے والے بیک وقت ریاستی جبر اور دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے یا پھر گرفتار کرلئے گئے۔ اُن کے ایک رُکن قومی اسمبلی علی وزیر متعدد مقدمات میں ضمانت پر رہا ہونے کے باوجود ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔ نام نہاد گڈ طالبان کو شہری حقوق کی تحریک کے مقابلے میں اسٹیک ہولڈر بنانے کی حکمتِ عملی ایک نوآبادیاتی ریاست کی ضرورت تو ہوسکتی تھی لیکن امن و سلامتی اور ملکی یکجہتی کیلئے نہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ضرب عضب ہو یا پھر ردالفساد، طالبانی فتنہ ختم نہ کیا جاسکا اور غالباً ایسا کرنا مقصود بھی نہ تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغان طالبان کو ڈیورنڈ لائن کے اِس پار پناہ گاہیں فراہم کی گئیں تو تحریک طالبان پاکستان کو ڈیورنڈلائن کے اُس پار امریکی اسلحہ سمیت سارے لوازمات اور مال غنیمت سے نوازا گیا ہے اور وہ پھر سے تازہ دم ہوکر غزوہ ہند بپا کرنے کو ہیں۔ جن پاکستانی علما اور ان کے مدارس نے جہاد و قتال کا سبق افغان طالبان کو پڑھایا تھا، اُن کے اب جہاد کو فساد قرار دینے کے فتوئوں کو افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے اُمرا نے رَد کردیا ہے۔ خود افغان طالبان کے امیر ہیبت اللہ نے طالبان پر کی جانے والی تنقید کو رَد کردیا ہے اور وہ کسی عہد کی پابندی کرنے کو تیار نہیں جس میں افغان سرزمین کے دہشت گردی کےا ستعمال کی مخالفت بھی شامل ہے۔ اور ہم اُن سے سفارتی معافی کے خواستگار ہیں، جو بیج تینوں افغان خانہ جنگیوں اور جہاد کے دوران بوئے گئے تھے، اُن کی فصلیں بار بار کاٹی گئی ہیں اور اب تازہ فصل تیار ہے۔ ایک اور فساد فی الارض!

پشاور میں منعقد ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد اب عمران خان نے 7 فروری کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کردیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی واپسی و بحالی کی اپنی پالیسی کا دفاع کیا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد روکنے کے فیصلے کو موجودہ دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایسے میں آل پارٹیز کانفرنس کرے تو کیا کرے، پہلے تو پختون سوسائٹی کے اُن تمام حلقوں کو اسٹیک ہولڈر کے طور پر آن بورڈ لیا جائے جو طالبان کے خلاف ایک عرصہ سے نبردآزما رہے ہیں اور ریاستی جبر کی نذر بھی ہوتے رہے ہیں، جن میں پختون قوم پرست، قبائلی علاقوں کی امن تحریک اور پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان شامل ہیں۔ جن پختون قوم پرستوں اور امن پسندوں کو دھتکارا جاتا رہا ہے، انہیں ہر اول دستہ بنانا ہوگا اور صرف قبائلی عوام کی طاقت سے طالبان پر زمین تنگ کی جاسکتی ہے بشرطیکہ سلامتی کے ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پختون قوم پرستوں نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں جو قابل تحسین ہیں۔ لیکن اُنہیں بھی سمجھنا ہوگا کہ احمد شاہ ابدالی کا خواب اور گریٹر افغانستان کی سیاسی حکمت اب طالبان کی گیم ہے۔ لیکن پختون قوم پرستوں کی یہ ٹھوس اور جائز شکایت کہ پختونوں کو طالبان پروجیکٹ کے تحت مشق ستم بنایا گیا ہے، کو دور کرنا ہوگا اور ریاست کو اُنہیں اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کو ازسرنو ترتیب دینےکیلئے ضروری ہوگا کہ چالیس برس کی جہادی ریاستی پالیسی کے تمام تر منفی نتائج اور اس کے نظریاتی و سماجی مضمرات اور اداراتی قلب ماہیئت کا جائزہ لیا جائے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان اور اس کے مطابق تشکیل کردہ ادارے بشمول نیکٹا اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کیوں کام نہ کرسکے۔ فوج ہی کو اگر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار ادا کرنا ہے تو اُسی کی یہ ذمہ داری ہو نہ کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور پولیس فورس کی جن کا کام امن عامہ اور شہری و دیہی زندگی کے معمولات کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔ لیکن چار دہائیوں کی تباہ کن پالیسی کا خمیازہ بھگتنے کے بعد یہ ضروری ہو چکا ہے کہ ملکی سلامتی کے معاملات سویلین قیادت کے ہاتھ میں ہوں اور پارلیمنٹ سلامتی و خارجہ پالیسی طے کرے نہ کہ جنرل ہیڈکوارٹر۔ جس بڑے پیمانے پر پاکستان میں نظریاتی طور پر طالبانائزیشن کی گئی ہے وہ بہت ہی خوفناک ہے۔ اصل سوال یہ طے کرنے کا ہے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو یا قومی ریاست؟ ہمارے ادارے ہیں تو جدید اور قومی، لیکن ریاست کا نظریہ اسلامی ہے۔ اسلامی ریاست بنانا ہی اگرمقصود تھا تو پھر أمارات اسلامیہ افغانستان اور ایران سے کیا نظریاتی جھگڑاہے؟ جس طرح کا معاشی انہدام ہمارے سامنے ہے، اس کے پیش نظر یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ ایک نحیف اور دست نگر معیشت کی بنیاد پر اتنی لحیم شحیم قومی سلامتی کی ریاست کھڑی نہیں رہ سکتی اور نہ ہی ہم توسیعی سلامتی کے ایجنڈوں کا شکار ہوکر بے نتیجہ جنگوں اور مہم جوئیوں میں پھنسے رہ سکتے ہیں۔ اب وقت ہے بدلنے کا۔ اوپر سے نیچے تک!