درآمدی دالوں کا مسئلہ

February 07, 2023

مقامی بحران اور ایل سیزکیلئے ڈالر دستیاب نہ ہونے سے ملکی بندرگاہوں پر درآمد شدہ دالوں کے پھنسے ہوئے سات ہزار میں سے دو ہزار کنٹینرز ریلیز ہونے کے بعد ان کا رمضان المبارک میں ممکنہ بحران ٹلتا دکھائی دینے لگا ہے تاہم آڑھت کا کاروبار کرنے والے افراد کے مطابق مارکیٹوں میں چند دنوں تک پہنچنے والی ان دالوں کی مقدار ناکافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر باقی پانچ ہزار کنٹینر مزید پھنسےرہے تو حالیہ دنو ں میں ان کی قیمتیں فی کلو مزید ایک سو روپے بڑھنے جبکہ بندرگاہوں پرپڑا اسٹاک خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس حوالے سے درآمد کنندگان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ حکومت رکے ہوئے کنٹینرزترجیحی بنیادوں پر کلیئر کرنے کے احکامات جاری کرے۔ ان کے مطابق غیر ملکی شپنگ کمپنیاں فی کنٹینریومیہ 100کے حساب سے ان پراب تک تین کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کر چکی ہیں۔ یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ دالیں پیدا اور برآمدکرنے والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان اس وقت 80فیصد ضرورت ان کی درآمدات سے پوری کر رہا ہے زرعی ماہرین کے مطابق مقامی سطح پر تقریباً 15لاکھ ایکڑ رقبے پر دالیں کاشت کی جاتی ہیں جو کل زرعی رقبے کا 6.7فیصد ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ان کی پیداوار پر بھی پڑا ہے۔ قومی معیشت میں زراعت کو مرکزیت حاصل ہونے کی بدولت وفاقی اور صوبائی سطحوں پر اس کی وزارتیں مکمل انفرااسٹرکچر سے آراستہ ہیں ۔ زرعی جامعات ، تحقیقی اور مالیاتی ادارے اور مائیکرو فنانس بنک ان کے ساتھ مربوط ہیں۔ موسمی تغیرات اور دیگر مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے جو مخدوش حالات سے گزر کر انھیں دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998