پاک ترک تعلقات میں میڈیا کی ذمہ داری

February 22, 2023

دنیا بھر میںپاک ترک تعلقات کی مثال دی جاتی ہے اور اگر ان دونوں ممالک کے مثالی تعلقات پر کوئی ملک بے چینی اور اضطراب محسوس کرتا ہےتو وہ بلا شبہ بھارت ہے ۔ بھارت کی اس بے چینی اور اضطراب کی وجہ مسئلہ کشمیر سے متعلق ترکیہ کی پالیسی اور صدر ایردوان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھل کر کشمیریوں سے یکجہتی کااظہار کرنا ہے۔ بھارت کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بننے کی راہ میں ترکیہ اور پاکستان بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگرچہ بھارت اسلامی ممالک سے اپنے تعلقات کو فروغ دینے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے لیکن وہ اب تک دیگر اسلامی ممالک کی طرح ترکیہ کے ساتھ گرم جوشی پر مبنی تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہا ،تاہم اب بھارت نے اس سلسلے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا ، اور بھارتی فلم انڈسٹری کے ذریعے ترکیہ کو فتح کرنے کے پروگرام پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔

اس نے سوشل میڈیا پر ترکیہ میں پاکستان کے خلاف کچھ عرصہ قبل بڑے پیمانے پر نفرت آمیز مہم کا آغاز کیا جس میں کچھ پاکستانی عاقبت نا اندیش انجانے میں(یا قیمت وصول کرنے پر ) آلہ کار بن گئے اور ترکیہ میں بنائی گئی یا بنوائی گئی غیر اخلاقی ویڈیوز پیش کیں جسے بھارتی سوشل میڈیا نے سنہری موقع سمجھتے ہوئے ان ویڈیوز کو خوب اچھالا،اس طرح ترکیہ میں پہلی بار پاکستانیوں کے خلاف نفرت آمیز مہم کا آغاز ہوا لیکن بھلا ہو ترکیہ کے وزیر داخلہ سیلمان سوئیلو کا انہوں نے اس موضوع سے متعلق روشنی ڈالتے ہوئے (اس موضوع پر پہلے بھی کالم لکھ چکا ہوں ) حقائق کو بیان کیا اور 80فیصد کے قریب سوشل میڈیا بھارت سے چلائے جانے سے آگاہ کیا۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کو نقصان پہنچانے اور ترک میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کیلئے بھارت نےبڑے پیمانے پر اپنی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ترکیہ میں تعینات بھارت کے نئے سفیر نے ترک میڈیا کے مختلف اداروں کا نہ صرف کئی بار دورہ کیا ہے بلکہ ان اداروں کے اعلیٰ حکام سے قریبی مراسم بھی قائم کرلئے ہیں جس کی وجہ سے ان اداروں کی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں بھی دیکھی جا رہی ہیں ۔ مسئلہ کشمیر سے متعلق ترکیہ کی پاکستان دوست پالیسی کی وجہ سے ترکیہ اور بھارت کے تعلقات میں سرد مہری رہی ہے۔بھارت میں اس سال جی -20ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔

بھارت اس خوف میں مبتلا ہے کہ ترکیہ کے صدر ایردوان اس جی-20 سربراہی اجلاس میں کشمیریوں پرہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بیان جاری نہ کردیں جس سے بھارت کا بنا بنایا کھیل خراب ہوجائے۔پاکستان کے سوشل میڈیا پر اپنے سبسکرائبرز کی تعداد میں اضافہ کرنے کے خواہاں کچھ نوجوان پاکستانی بھارت کے سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں اور وہ بھارت کی ان چالوں کو سمجھے بغیر ان کے ہاتھوں کھلونا بن گئے ہیں۔چند روز قبل ایک پاکستانی نوجوان نے اس سلسلے میں پاکستان کو بدنام کرنے میںکو ئی کسر نہ چھوڑی ( انجانے میں یا پھر قیمت لےکر وہ بھارت کا آلہ کار بن گیا ) اس نوجوان نےحکومتِ پاکستان کی جانب سے ترکیہ کو دی جانے والی امداد کے بارے میں سوشل میڈیا پر ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں یہ جھو ٹ بولا گیا کہ پاکستان کی جانب سے ترکیہ کو دی جانے والی امداددراصل ترکیہ ہی کی جانب سے پاکستان کو سیلاب کے متاثرین کے امدادی پیکٹوں کو نام تبدیل کرکے واپس بھجوائی گئی ہے، جسے بھارتی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر بھلا پاکستانی میڈیا( چند ایک میڈیا اینکر پرسنز) جنہیں اللہ نے خبر کی تصدیق کرنے کی توفیق ہی نہیں دی اس خبر کو ہاٹ کیک کی طرح بیچنے کا بیڑہ اٹھا لیا اور اس خبر کی تصدیق کئے بغیر الامان و الحفیظ ایسے ایسے تبصرے کئے جیسےوہ خود ان پیکٹوں کا ہر پہلو سے جائزہ لے چکے ہیں اور لیبارٹری ٹیسٹ بھی کروا چکے ہیں۔ عقل کے اندھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس قسم کے تبصروں سے ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات پر کس قدرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارتی میڈیا جس نے جان بوجھ کر پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ مہم چلائی اور جس کے آلہ کار چند ایک پاکستانی اینکر پرسنز بھی بن گئے ۔ ان کی خبروں اور تبصروں کو ترکیہ میں بھی جگہ دی جانے لگی ہے اس سلسلے میں ترکیہ سے شائع ہونے والے روزنامہ سوز جو میں بھی ( جو میری نظرسے گزرا ) اس خبر کو نمایا ں طور پر شائع کیاگیا ہے ۔ ظاہر ہے اس قسم کی خبریں ترک میڈیا میں جگہ پانے سے فائدہ کس ملک کو ہوگا؟ بلا شبہ بھارت کو اور بھارت نے ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کا جو بیڑہ بڑے منظم طریقے سے نئے سفیر کی آمد پر اٹھایا ہے اس میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی وفاقی و زیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نےترکیہ کو زلزلے کے بعد دی جانے والی انسانی امداد سے متعلق گمراہ کن اور من گھڑت پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے اسے مکار اور بددیانت عناصر کی جانب سے شروع کی گئی منظم مہم قرار دیا اور کہا کہ ایسی شرمناک حرکتوں کا مقصد پاکستان کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے ۔ اس لئے سوشل میڈیا کی خبروں کی تصدیق کئے بغیر پاکستانی اینکرز کو کسی ایسے ایشوپر خاص طور پرجو پاکستان اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں ہوں، ان کی تصدیق کرنے کے بعد ہی لب کشائی کرنی چاہئے۔ اب پاکستانی اینکرز کے بیانات ترکیہ میڈیا پر ترکی زبان میں ترجمے کے ساتھ پیش کئے جا رہے ہیں۔ یہ ملک اور ریاست کا معاملہ ہے (کسی حکومت کا معاملہ نہیں ) ملک کی عزت سب سے مقدم ہے ۔ ترکیہ سے متعلق خبر کی تصدیق کیلئے مجھ ناچیز سے رجوع کرلیا کریں کیونکہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہم سب کا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)