ریاست کون ہے؟

February 25, 2023

حفاظی ضمانت لینے کے لئے عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے ۔ اس موقع پر عوام کا جو بے ساختہ جوش و جذبہ اور حمایت دیکھنے میں آئی وہ قومی سیاسی منظرنامے پر اُن کی ہر آن فزوں تر ہوتی مقبولیت اورمنفرد سیاسی حیثیت کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ مناظر اس حقیقت کے باوجود تھے کہ خدشہ موجود تھا کہ اس موقع پر شاید ایک بار پھر اُن کی جان لینے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ اس دوران ہر گزرتے دن کے ساتھ گورننس کی خستہ حالی تشویش ناک حد تک بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن افراتفری اور انتشارکی کھائی میں گرنے سے بچنے کی نہ کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کوئی طریقہ اپنایا جارہا ہے ۔ معاشی بحران کے سائے گہرے ہونے سے ریاستی ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں ۔

چیئرمین نیب نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ وہ کسی دوسرے ادارے یا شخص کے دبائو تلے کام نہیں کرسکتے۔ دبائو یہ تھا کہ ہوشربا بدعنوانی کے مجرموں کو چھوڑ دو اور معمولی کوتاہی کا ارتکاب کرنے والوں کو پکڑ لو ۔ یہ استعفیٰ بلاشبہ حکمران اشرافیہ اور اُن کے لالچی مفاد پرست ٹولے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔آفتاب سلطان کا کہنا تھا کہ کسی کی خواہش کے مطابق احتساب نہیں ہوسکتاـ، ’’ میں محض اس لئے کوئی جھوٹا کیس بنا دوں یا کسی ثابت شدہ ریفرنس کو ختم کردوں کیوں کہ مجرم کسی بڑے عہدے پر فائز ہے ۔‘‘ تاہم یہ بیان اُن کی اپنی راست بازی کی سند نہیں کیوں کہ اُنھوں نے اپنے دور میں کئی ایک ثابت شدہ مجرموں کو بچ نکلنے کا موقع دیا۔ اگر اُن جیسا مصلحت پسند شخص بھی مزید ساتھ نہ چل سکا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجرم ٹولہ اُن سے کیا چاہتا تھا اور اُنھیں کس قدر دبائو کا سامنا ہوگا۔ آئین پابند کرتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد زیادہ سے زیادہ 90 روز کے اندر انتخابات ہوں، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان، چیف الیکشن کمشنر اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنر آرٹیکل 224(IB)(2) کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔مذکورہ آرٹیکل کہتا ہے کہ’’جب قومی اسمبلی یاکوئی صوبائی اسمبلی تحلیل ہوجائے تو 90 روز کے اندر عام انتخابات کرائے جائیں گے جن کے نتائج کا اعلان انتخابات ختم ہونے کے بعد چودہ دنوں کے اندر کیا جائے۔‘‘ اس طرح آئین کی خلاف ورزی کا کھیل جاری ہے ۔ تمام آئینی اور قانونی ماہرین نے زور دیا ہے کہ انتخابات آئین کی مقرر کردہ مدت کے اندر ہی ہونے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختوانخوا کی ہائی کورٹس نے بھی اسی کا حکم دیا ہے ۔ لیکن انتخابی عمل کی طرف بڑھنے کی بجائے الیکشن کمیشن آف پاکستان اس عمل کو التوا میں ڈالنے کی بجائے کوئی قانونی موشگافی تلاش کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس کی وجہ یہ خوف ہے کہ عوام ووٹ کی طاقت سے موجودہ حکمران ٹولے کی ٹھکائی کردیں گے ۔

اس صورت حال سے نمٹنے اور اس عمل کومتحرک کرنے کے لئے صدر مملکت نے الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 57 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پنجاب اور کے پی کے صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لئے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے ۔ مذکورہ آرٹیکل کہتاہے : ’’صدر کمیشن سے مشاورت کے بعد عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان کریں گے۔‘‘ اس معاملے میں صدارتی کردار کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’مجاز اتھارٹی‘‘ کی طرف سے شیڈول کے اعلان کے بعد ہی انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ اب متعلقہ صوبوں کے گورنرز ، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان موجودہ کیس میں اس ’’مجاز اتھارٹی‘‘ کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ موجودہ کیس میں ارادہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں پیش ہوتاکہ آئین کی آڑ لے کر ممکنہ تاخیر کی جاسکے ۔

کیایہ اس لئے ہے کہ ہم آئین کے اوراق کھنگالیں تا کہ پتا چلایا جاسکے کہ آخر یہ مجاز اتھارٹی کون ہے؟ کس کی طرف سے اعلان کا چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظار ہے؟ سپریم کورٹ کے دو موجودہ ججوں کی طرف سے چیف جسٹس کے لکھے گئے خط کو دیکھیں جس میں متعلقہ ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی چالبازیوں کا ازخود نوٹس لینے کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے ایسا کریں ؟ یا کیا ہم گورنرکے دفاتر اور متعلقہ اداروں کے سربراہان سے درخواست کریں کہ وہ اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی کے لئےفوری طور پر آگے بڑھیں، یا اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں؟ یا کیا ہم ریاست کی طرف سے بے حس ہوجائیں کہ اب یہ افراتفری اور انتشار کی کھائی میں گرتی ہے تو گر جائے ؟ حکمران ٹولے کا تو واضح ارادہ یہی ہے ۔ ان کے لئے انتخابات کرانے کی بجائے کوئی بھی تباہ کن آپشن قابل قبول ہوگا۔

کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ایسا دن طلوع ہوگا جب قانون اور آئین کے لئے کھڑا ہونے والا کوئی نہیں ہوگا، حتیٰ کہ وہ ادارے اور افراد بھی نہیں جن کی اولین ذمہ داری آئین کی کتاب میں درج ضوابط اور طریقوں کا دفاع کرنا ہے۔ اس سے ہم اپنے ہاں اُس منظر کے گواہ بن رہے ہیں جب حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں اورگراوٹ کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ حکومت کی تبدیلی کے غلط آپریشن کی ناکامی کے بعد درپیش سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لئےکوئی طریقہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ وقت ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی انا کو کنٹرول کیا جائے اور ریاست اور اس کے مفادات کو انفرادی بقا اور ترقی پر فوقیت دی جائے۔ ایک شخص، یا افراد کا ایک منتخب گروہ، ریاست نہیں ہو سکتا۔ یہ دکھاوا ختم ہونا چاہئے کہ بس وہی ریاست ہیں ۔ ریاست وہ ہے جس پر آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی ہو۔ اس سے کم یا زیادہ کچھ بھی قابلِ قبول نہیں۔